میونخ:سلامتی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان ،اور چین کامشترکہ مو¿قف
اسلام آباد/ میونخ (سٹاف رپورٹر+ آئی این پی + بی بی سی) پاکستان اور چین نے 53 ویں میونخ سلامتی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے بارے میں اپنے مشترکہ موقف کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے مغرب کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے غیر جانبدارانہ انداز فکر اختیار کرنا چاہئے تاکہ دنیا بھر میں امن و ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ماسکو حکومت امریکہ کے ساتھ’ حقیقت پسندانہ تعلقات‘ ا±ستوار کرنا چاہتی ہے۔ امریکی نائب صدر کی خطاب کی مزید تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا باوجود اس کے نئی واشنگٹن انتظامیہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مفادات کی تلاش میں ہے، امریکہ روس کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا رکھے گا۔ اسلام آباد سے سٹاف رپورٹر کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا دہشت گردی کے نوے فیصد متاثرین مسلمان ہیں۔ اور مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں دہشت گردنہ تو مسلمان ہیں نہ ہی مسیحی بلکہ وہ تو محض جرائم پیشہ لوگ ہیں۔ کانفرنس کے مکمل اجلاس میں اپنے کلیدی خطاب میں چین کے وزیر خارجہ وانگ پی نے شرکا ممالک پر زور دیا وہ تعاون کی پاسداری کریں اور دنیا بھر میں امن و ترقی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے درست فیصلے کریں۔ انہوں نے کہا دہشت گردی ایسا خطرہ ہے جس سے مجموعی طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا امن و ترقی موجودہ دنیا کا اہم موضوع ہے۔، ہمیں کثیرالجہتی ازم کا پابند رہنا چاہئے جو امن، ترقی اور عالمی مسائل کے تصفیے کا موثر راستہ ہے۔ انہوں نے کہ عالمی طرز حکمرانی کو بہتر بنایا جانا چاہئے تاکہ عالمی ترقی میں عدم توازن کو حل کیا جائے اور عالمی معیشت کی پائیدار نمو کو حاصل کیا جا سکے۔ انہوں نے کانفرنس کے 300 سے زائد شرکا کو بتایا چین عالمی طرز حکمرانی میں سرگرمی سے حصہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا ہر قسم کے علاقائی تعاون میں سختی سے پیشرفت کرے کیونکہ یہ عالمی ترقی کے فروغ کے لئے موثر ثابت ہوا ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا جو ملک دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرتے ہیں انہیں تنہا کر دینا چاہئے، دہشت گردی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی کوئی بھی خطہ دہشت گردی کی لعنت سے محفوظ نہیں رہے گا، کابل قندھار، ہلمند اور پاکستان میں ہونے والے حالیہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کوئی اچھا اور برا دہشت گرد نہیں ہوتا، ہم دہشت گردی کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، ہوں گے اور ضرور ہونا چاہئے کیونکہ آنے والی نسل کی زندگی اور خوشحالی اس پر منحصر ہے۔ میونخ میں سکیورٹی کے امور پر ہونے والی اہم کانفرنس میں افغان صدر نے خطاب کیا اور اپنے خطاب کے اہم نکات پر مشتمل ٹوئٹس بھی کیں۔ افغان صدر نے کہا جو ملک دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرتے ہیں انہیں تنہا کر دینا چاہئے تاکہ دہشت گردی کی لعنت کو ختم کیا جا سکے۔ دہشت گردی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی کوئی بھی خطہ دہشت گردی کی لعنت سے محفوظ نہیں رہے گا۔ کابل، قندھار، ہلمند اور پاکستان میں دہشت گردی ہمارے عہد کا واضح چیلنج ہے۔ اس چیلنج پر فتح پانے کے لئے ایک پوری نسل کی جانب سے عزم و ہمت درکار ہے۔ انہوں نے کہا ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں آرڈر (یعنی نظم و ضبط) کو نئے سرے سے بیان کیا جا رہا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے ہم اسے سودمند، پریشان کن یا تباہ کن بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا افغانستان میں جاری جنگ خانہ جنگی نہیں۔ یہ منشیات کی جنگ ہے یہ دہشت گردوں کی جنگ ہے اور یہ ریاستوں کے مابین غیراعلانیہ جنگ ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں جواد ظریف نے کہا ان کا ملک کسی کی دھمکی میں آنے والا نہیں۔ 'ہم زور زبردستی کا اچھا جواب نہیں دیتے۔ ہمیں پابندیاں اچھی نہیں لگتیں لیکن ہم باہمی عزت پر اچھا سلوک کرتے ہیں اور ہم باہمی انتظامات اور قابل قبول صورت حال میں بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے آئندہ موسم گرما تک طالبان کی جانب سے امن عمل کو مسترد کرنے کی صورت میں قطر سے طالبان کا دوحہ میں دفتر بند کرنے کی درخواست کردی ۔ افغان میڈیا کے مطابق صدر اشرف غنی نے قطری وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی سے کہا ہے طالبان نے آئندہ موسم گرما تک امن عمل کو مسترد کر دیا تو دوحہ میں طالبان کا دفتر بندکردیا جائے۔ اشرف غنی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے طالبان کو لڑائی روک کر امن عمل میں شامل ہونا چاہئے اور انہیں مواقع ضائع نہیں کرنے چاہئیں۔