پانامہ کیس، عوام چاہتے ہیں فیصلہ عدالت کرے، کمشن کی تاریخ اچھی نہیں: منظور وٹو
لاہور (سید شعیب الدین سے) پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سابق وفاقی وزیر، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ آج پاکستان کو کرپشن اور دہشت گردی کے دو بڑے مسائل کا سامنا ہے، قوم کی نظریں عدالت عظمیٰ پر ہیں جہاں حکمران خاندان کٹہرے میں کھڑا ہے۔ قوم پانامہ کیس کی حقیقت کو پہنچ چکی ہے اور اب کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں۔ سارا پاکستان ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے عدالت عظمیٰ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنا چاہئے مگر بظاہر الزامات ثابت ہو چکے ہیں اور حکمران الزامات غلط ثابت کرنے میں مکمل ناکامی کے بعد ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا حکمرانوں نے قطری خطوط اور بزرگوں کا نام لیکر ٹامک ٹوئیاں ماریں مگر دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ آج عوام کی خواہش ہے فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے، کیس جوڈیشل کمشن کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ جوڈیشل کمشنوں کے فیصلے تسلیم نہ کرنے کی ہماری تاریخ اچھی نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمشن ہو یا ماڈل ٹاﺅن فائرنگ جوڈیشل کمشن کے فیصلوں کو ”طاقتوروں“ نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا فیصلہ جوڈیشل کمشن نے کرنا ہے تو پھر سیاسی اخلاقیات کا تقاضا ہے حکمران اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں اور پھر دفاع کریں۔ دہشت گردی میں دوبارہ اضافے اور پے درپے واقعات پر انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ حکومت کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ”پولیٹکل وِل“ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ دہشت گردی کے واقعات میں درجنوں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں اور حکمرانوں کے صرف چند مذمتی بیانات پر بات ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف اپنے جرات مندانہ کردار اور بے لوث قیادت سے قوم کو ایک امید دلائی تھی۔ دہشت گردوں کا پیچھا کر کے انہیں ٹھکانے لگایا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے دہشت گرد جنرل راحیل شریف کے جانے کے منتظر تھے۔ موجودہ حکمران ویژنری لیڈر نہیں۔ ان میں کوئی ذوالفقار علی بھٹو نہیں لیکن یہ ”آرگنائزر“ بہت زبردست ہیں۔ یہ بڑے منصوبے بنائے ہیں جسے موٹرویز، سستی روٹی، دانش سکول، لیپ ٹاپ سکیم، بنگلہ دیش، اورنج ٹرین، ملک کی فضا کو آلودہ کرنیوالے غیرملکی کوئلے کے استعمال والے مہنگے کوئلے کے منصوبے یہ تمام بڑے منصوبے اور ان کا بڑا کمیشن ان کا کمال ہے۔ انہوں نے کہا حکمران خاندان نے سیاست میں نیا اسلوب پیدا کیا ہے۔ یہ سیاست کو ”اربنائز“ کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کو یکسر نظرانداز کر رہے ہیں۔ شہروں کی نمائندگی بڑھانے کیلئے دیہی حلقوں میں بھی شہری آبادی کے رہائشیوں کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا حکمران خاندان ایک کاروباری شہری حکمران ہے، یہ صرف شہری نمائندگی کو اپنی نمائندگی سمجھتے ہیں، لاہور شہر کو قصور اور شیخوپورہ تک بڑھا رہے ہیں۔ حکمران ملکی کاشتکاروں کو روند رہے ہیں۔ انہیں فصلوں کا صحیح معاوضہ نہیں مل رہا۔ بھارت سے ٹماٹر، آلو، مکئی، پیاز، ادرک، لہسن سمیت دیگر سبزیاں درآمد کر کے پاکستانی کاشتکاروں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ پل، انڈرپاس، جنگلہ بس بنا کر ذاتی منفعت تو حاصل کر رہے ہیں مگر انسانی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ علاج اور تعلیم کی سہولتیں، صاف پانی کی فراہمی پر دھیان نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے نئے بلدیاتی نظام کو سابقہ تمام نظاموں سے کمتر قرار دیا اور کہا اسی میں تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر کو سونپ دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا وہ 8 برس ضلع کونسل اوکاڑہ کے چیئرمین رہے، ان کے پاس پرانی جیپ تھی، نئی گاڑی اور ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز نہیں تھے مگر ڈپٹی کمشنر اور ایس پی منتخب بلدیاتی نمائندوں کو جوابدہ تھے۔ پرویز مشرف نے بلدیاتی نمائندوں کو مزید مضبوط بنایا اور مالی اختیار بھی دیا۔ آج کے بلدیاتی نمائندے مکمل بے اختیار ہیں۔ اس کا نقصان عام آدمی کو پہنچے گا۔