اقبال منزل سے ڈپٹی کمشنر تخت لاہور تک
حکومت پنجاب نے دو سو سالہ پرانا کمشنری نظام لاگو کر دیا ہے۔ جسکے بعد بہت سے دانشور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایسی کیا ضرورت تھی کہ بلدیاتی نظام لاگو کرنے کے ساتھ ہی غلامی کے دور کا نظام دوبارہ سے لاگو کیا گیا ہے۔ ہمارے دانشور اس عہدے کا جتنابھی پوسٹمارٹم کرلیں لیکن اس عہدے کے ساتھ وابستہ افراد نے بطور ڈی سی او ماضی میں ایسے ایسے کارہائے سر انجام دیے ہیں کہ وہ تاریخ میں اپنا نام رقم کرگئے ہیں۔ ماضی میں کئی افسران نے اپنی بطور ڈپٹی کمشنر ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے مستقبل کیلئے بھی بہت سی مشکلات مول لیں بلکہ انہوں نے اپنا مستقبل بھی داؤ پر لگا لیاپر اپنے عہدے پر حرف نہیں آنے دیا۔ جب تک کمشنری نظام کام کرتا رہا عوام کو بھی ایک احساس تحفظ تھاکہ انہیں انصاف کے حصول اور پولیس کے رویے سے تنگ نہیں ہونا پڑتا تھا۔ کوئی بھی مسئلہ ہو عوام کو صرف ایک درخواست لیکر صرف ڈپٹی کمشنر کے پاس جانا پڑتا تھا اور انکے مسائل پر کارروائی ہوجاتی تھی۔حکومت نے جونہی دوبارہ سے ڈی سی نظام کو لاگو کرنے کا نوٹیفیکیشن نکالاتو ایک دفعہ تو بیوروکریسی میں ہلچل مچ گئی کیونکہ ڈی سی کا عہدہ بیوروکریسی میں اور خاص کر ڈی ایم جی گروپ میں سیکرٹری کے عہدے تک پہنچنے سے پہلے سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کا کمانڈنگ افسر ہوتا ہے اور بطور ڈی سی جو اختیارات ایک ڈپٹی کمشنر کو حاصل ہوتے ہیں انکی نظیر نہیں ملتی لیکن ان اختیارات کے ساتھ ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ جاتی ہیں اور یہ ایک ایسی پوسٹنگ لے جہاں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھی راہ جاتے بہت سے لوگوں کی ناراضگی مول لینی پڑ جاتی ہے۔ لاہو ر میں نورالامین مینگل نے بہت محنت کی انکے بعد کیپٹن عثمان نے محنت اور لگن کے ساتھ کام کرکے ایک مثال قائم کی اور بطور ڈی سی وہ ایک قابل افسر تھے اب حکومت نے انکی جگہ پر ایک نوجوان افسر سمیر احمد سیدکو لاہور کا ڈپٹی کمشنر لگا دیا ہے۔میری سمیر سے ملاقات قیصر عباس اور ملک منور حسین کی بدولت ہوئی تھی، ملک منور کے ساتھ ایک بہت ہی قابل تقدس رشتہ ہے لیکن انکے شعبے کے تقدس کی وجہ سے ان کے بارے میں کھل کر کالم میں گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ اقبال منزل کا رہائشی یہ نوجوان سمیر احمدسید ایک خاموش طبع اور انتہائی فارمل سیلف میڈنوجوان تھاجو کہ خود سی ایس ایس کرنے کیساتھ ساتھ دوسرے سی ایس ایس کرنے والے بچوں کو بھی پڑھاتا تھا۔سمیر احمد سید کی پہلی پوسٹنگ سکھر میں ہوئی اور انہوں نے وہاںاپنی محنت اور ایمانداری سے اپنے رفقاء پر دھاک بٹھا دی بیوروکریسی میں کہا جاتا ہے کہ افسر اپنی پہلی پوسٹنگ سے ہی اپنے مستقبل کی جھلک دکھلا دیتا ہے۔سکھرمیں 2008 سے 2012 تک کام کرنے کے بعد سمیر کو گجرات میں اے ڈی سی لگا دیا گیا وہاں انہوں نے تقریباً ایک سال تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیں جس کے بعد انہیں اگست 2013میں قصور پوسٹ کردیا گیا۔قصور میں سمیر نے کام کا آغاز ہی کیا تھا کہ چیف منسٹر ہاؤس سے پروانہ آگیا اور اکتوبر 2013 میں اپنی قصور میں پوسٹنگ کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی سمیر احمد سید کو پی ایس ٹو چیف منسٹر پنجاب تعینات کر دیا گیا اور یہ تعیناتی بھی کسی عام سی ایم کے ساتھ نہیں شہباز شریف کے ساتھ تھی جو کہ اپنے کام اور سٹائل کی وجہ سے بہت ہی ٹف باس سمجھے جاتے ہیں اور اکثر افسران کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے کی بجائے اپنی ٹرانسفر یا تو وفاق میں کروا لیں یا ایسا ڈیپارٹمنٹ سنبھال لیں جہاں چیف منسٹر کی نظر ہی نہ جائے لیکن سمیر احمد سید نے اس تعیناتی کو بطور چیلنج لیا اور اپنی ذمہ داریوں سے اس طرح عہدہ براہ ہوئے کہ وزیراعلیٰ نے انہیں اس شہر کا ڈپٹی کمشنر لگا دیا جو کہ ان کا تخت کہلاتا ہے۔مجھے بہت عرصے بعد ڈپٹی کمشنر کے دفتر جانے کااتفاق ہوا اور یہ دیکھ کرحیرانگی ہوئی کہ ڈپٹی کمشنر کو ملنے کیلئے آپ کو کسی کی منت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ منہ اٹھایا اور کھلے دروازے اندر گھس گئے ڈی سی ایک فائلوں کے ڈھیر میں مگن میں نے پوچھا کہ کیسا تجربہ ہے تو سمیر کا کہنا تھا کہ پوسٹنگ کے بعد ابھی تک امی کی دعائیں لینے کا موقع نہیں مل سکا۔ میرے خیال میں اگر ایک ڈی سی اپنا کام اسی طرح کرتا رہے توماں کے ساتھ پورے شہر کی دعائیں انکے ساتھ ہوں گی۔ لاہور کے ڈی سی کیلئے موجودہ نئے نظام کے تحت یہ عہدہ ایک چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ جہاں ایک طرف ڈی سی او کو دوبارہ سے ڈی سی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں وہیں انکے ساتھ لاہور میں بلدیاتی نظام تازہ تازہ فعال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اختیارات کی نا ختم ہونے والی جنگ ہے اور اسکے ساتھ کنفیوزن ہی کنفیوزن ہے۔ لاہور کے ڈی سی کیلئے اپنے دفتر میں بہت سی آسانیاں ہیں کیونکہ یہاں طارق زمان جیساافسر موجود ہے جس نے اس سے پہلے کئی ڈی سی اوز کے ساتھ کام کیا اور ان کے دفتری امور آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ڈی سی او آفس کے دروازے عوام کیلئے ہمیشہ کھلے رکھے۔
امید ہے کہ جس طرح وزیراعلیٰ کے دفتر سے سرخرو ہوکر ایک انتہائی ذمہ داری سے سمیر نے تخت لاہو رکے ڈی سی کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ویسے ہی یہاں بھی لاہوریوں کے دل جیت کر ثابت کرسکیں کہ وہ اقبال منزل کے رہائشی ہی نہیں اقبال کے شاہین بھی ہیں۔