حدیبیہ پیپرز ملز فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کروں گا: چیئرمین نیب، نتائج بھگتنا ہونگے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران معاملے سے متعلق چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر نے اپنا اپنا موقف پیش کر دیا۔ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قرار دیا ہے کہ کوشش ہے کہ اس مقدمہ کی سماعت آئندہ جمعرات تک مکمل کرلی جائے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو اپنے دلائل آج مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اب کوئی نئی دستاویز وصول نہیں کی جائے گی، صرف جواب الجواب کا موقع دیا جائیگا، اٹارنی جنرل کے بعد درخواست گزار عمران خان کے وکیل نعیم بخاری اٹھنے والے قانونی سوالات کا جواب دیں گے، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ایسے مقدمات کی سماعت آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے کیونکہ معاملہ عوامی مفاد کا نہیں چند افراد سے متعلق ہے جبکہ عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اس اختیار کو استعمال کیا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں یا نہیں؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکی ہے۔ دوران سماعت رسپانڈنٹ نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک نئی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ چیئرمین ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ ان کے ادارہ کی جانب سے پانامہ پیپرز سامنے آنے پر فوری طور پر اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے ان سے استفسار کیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کا کیا کردار ہے؟ آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں یہ تو طے ہے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پانامہ ٹیکس چوروں کی جنت ہے، پانامہ کا معاملہ سامنے آنے پر وزارت خارجہ کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی ہے تاہم ہمارا متعلقہ ملک کے ساتھ اس حوالہ سے کو ئی معاہدہ نہیں ہے۔ جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ ایف بی آر نے پانامہ کے معاملے پر خارجہ سے کب رابطہ کیاتھا؟ ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے 200 گز کے فاصلے پر ہے لیکن انہیں وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے میں 6 ماہ لگ گئے ہیں،200 گز کا فاصلہ 6 ماہ میں طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو۔ انہوں نے چیئرمین سے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے پانامہ لیکس پر آف شور کمپنی مالکان کو نوٹس کب جاری کیے تھے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ستمبر 2016 کو ایف بی آر نے پانامہ لیکس پر نوٹس جاری کیے تھے، 343 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آف شورز کمپنیوں کے حوالہ سے صرف ڈائریکٹرز کا نام ہونا کافی نہیں ہے، 12افراد دنیا میں نہیں رہے،39 کمپنیوں کے مالکان پاکستان کے رہائشی نہیں52 افراد نے آف شور کمپنیوں سے ہی انکار کیا ہے جبکہ 92 افراد نے آف شور کمپنیوں کو تسلیم کیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کس کس کا جواب آیا ہے؟ تو چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حسن، حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جوابات دیئے ہیں، مریم نواز نے کہا ہے کہ ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں ہے اور وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک نہیں ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ کیا مریم نواز نے اپنے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا ہے؟ تو چیئرمین نے کہا کہ انہوں نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نومبر 2016 کو شریف فیملی کے بچوں کا جواب موصول ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حسین نواز نے کہا کہ 2000 دسمبر سے بیرون ملک مقیم ہیں جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حسین نواز نے صرف بیرون ملک مقیم ہونے کا دفاع لیا ہے اور ان کے جواب کے بعد آپ نے فائل بند کر دی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ حسین نواز کے نیشنل ٹیکس نمبر کی تصدیق کرتے ہیں تو چیئرمین نے کہا کہ حسین نواز کا این ٹی این درست ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2002 کے بعد پرانے این ٹی این نمبر منسوخ ہو گئے تھے، کیا حسین نواز نے نیا این ٹی این بنوایا ہے؟ جس پر چیئرمین نے کہا کہ ریکارڈ سے چیک کر کے ہی بتا سکتا ہوں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اپنے اقدامات کو ریکارڈ سے ثابت کریں جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہم تمام معلومات کی تصدیق کر رہے ہیں جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ لگتا ہے آپ کو تصدیق کے لیے مزید30 سال درکار ہیں؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر نے گھنٹوں کے کام پر ایک سال لگا دیا گیا ہے، ایف بی آر جو کچھ کر رہا ہے سب کے سامنے ہے، کون کب سے بیرون ملک میں ہے ایک گھنٹے میں پتا چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب لکھا گیا تھا ؟ ریکارڈ دکھائیں؟ جس پر ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ اس وقت ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگرکو ئی ریاستی ادارہ اپنی ذمہ دداریاں بطریق احسن سرانجام دیتا تو کیس عدالت میں ہی نہ آتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا۔ دوران سماعت چیئرمین نیب چوہدری قمر الزمان پیش ہوئے اور عدالت کے استفسار پر موقف اختیار کیا کہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کارروائی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے جس پرجسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ پانامہ کا معاملہ انکے دائرے میں نہیں آتا؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا یہ نیب کا موقف ہے کہ ریگولیٹر نہیں آیا اس لیے آف شور کمپنیوں کیخلاف کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیانیب کے قانون میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے؟ کیا نیب کو کوئی اور ریگولیٹ کرتا ہے؟ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا قانون ہمیں ریگولیٹ کرتا ہے جس پر جسٹس کھو سہ نے کہا کہ قانون چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے لیکن یہ ریگولیٹر کی بات کرتے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر ڈار نے کہا کہ مشکوک ٹرانزیکشن پر بنک کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بجلی اور گیس کے ریگولیٹر تو موجود ہیں آج نیب کے ریگولیٹر کا بھی پتا چل گیا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیاریگولیٹر وہ ہے جو چیرمین نیب کو تعینات کرتا ہے؟ جسٹس گلزار نے کہا کہ نیب کا موقف سن کر افسوس ہوا ہے، پراسیکیوٹر صاحب اب بس کر دیں، عدالت کو گمراہ نہ کریں جس پر فاضل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اپنی زندگی میں کبھی عدالت کو گمراہ نہیں کیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں ہے تو آخر کس کے پاس ہے؟ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کارروائی ضرور کریں گے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے بلا کر پوچھ سکتے ہیں تو آپ بھی کسی کو بلا لیتے، جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لوگ طعنے دیتے ہیں کہ آپ کام نہیں کرتے ہیں، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ آج بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ میرا کام ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نے اپنے اختیار کو دفن کر دیا ہے، ادارے مفلوج ہونے کا آئیڈیل کیس ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نیب کو عوام کا ریگولیٹر ہونا چاہیے، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ہی ٹھپ کر دیا ہے، نیب کو اپیل کرنا چاہیے تھی، آپ نے اپیل ہی نہیں کی، نیب نے ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا ہی نہیں ہے، نیب کی اپیل نہ کرنے پر تحفظات ہیں،ہم اپیل سننے کا پلیٹ فارم نہیں ہیں لیکن انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، چیئرمین نیب نے کہا کہ التوفیق کمپنی کے معاملے پر مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا،جس پرجسٹس عظمت نے کہا کہ ایف آئی اے پاکستان کا ہی ادارہ ہے اٹلی کا نہیں، کسی ملزم کی چار سو روپے کے کیس میں ضمانت ہو جائے تو نیب فوراً اپیل دائر کردیتا ہے لیکن اس معاملے میں اربوں کی کرپشن پر بھی اپیل دائرنہیں کی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جب ہائیکورٹ کے جج نے کہا کہ نیب اپیل کر سکتی ہے تو آپ نے اپیل کیوں نہیں کی؟ جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ پراسیکیوٹر کی مشاورت سے ہوتا ہے، پراسیکیوٹر نے رائے دی تھی کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، میاں شریف فوت ہو چکے تھے اگر اپیل کرتے تو نیب کی بدنامی ہوتی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا اپیل نہ کر کے آپ بدنامی سے بچ گئے ہیں ؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ قانونی نکات نہیں ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کسی دبائو کے بغیر آپ اپنی رائے دیں کہ آپ یہ کیس کھولنے حق میں ہیں یا نہیں؟ جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ اپیل دائر نہ کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہوں، متعلقہ اداروں کی طرف سے کارروائی کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں، اپنے خیالات پر قائم ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز پر اپیل دائر نہیں کروں گا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا بہت بہت شکریہ چیئرمین نیب صاحب، اب آپ کو اس کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو، بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی، نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون؟ جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا دیکھنا ہو گا کہ عدالت کے پاس دستیاب ریکارڈ کیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا کسی غلط بیانی پر اسکو نا اہل کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے شفاف ٹرائل کو بھی دیکھنا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا عدالت کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے؟ کیا ہم 1.2 ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب کے ہی جانے دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سوال میرے لیے آسان نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ عدالت حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ نہیں کھلوا سکتی، اٹارنی جنرل جی، میری یہی رائے ہے، اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائیگی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آئندہ ایسا نہ ہو اسکے لیے بھی تو ہمیں اصول وضع کرنے چاہئیں، اگر ہم نے نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ دیا تو پھر چیئرمین نیب بھی اپنے عہدے پر نہیں رہیںگے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل مسول علیان نے سپریم کورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ اضافی دستاویزات ہمارے دلائل مکمل ہونے کے بعد جمع کرائی گئی ہیں، اگر ان دستاویزات کوریکارڈ کا حصہ بنانا ضروری ہے تو اس صورت میں مقدمہ کی سماعت 8 ہفتوں کے لئے ملتوی کی جائے۔ بی بی سی کے مطابق درخواستوں کی سماعت کے دوران جب وقفہ ہوا تو ایف بی آر کے قائم مقام سربراہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ چلتے چلتے وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے تھے کہ ’’شکر ہے بچت ہو گئی ورنہ میں تو بہت ڈرا ہوا تھا‘‘۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو جھوٹ نہ بولتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا معمول کی بات ہے۔