ترقی یافتہ امریکہ کی ”پسماندہ عدلیہ“
امریکہ کی ترقی کے ڈھول دور سے ہی سہانے ثابت ہو چکے ہیں اور اس کا کریڈٹ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 27 جنوری کو ایران، عراق، شام، لیبیا، یمن، صومالیہ اور سوڈان کے شہریوں کی امریکہ میں آمد پر پابندی لگا دی تھی اور اس پر عملدرآمد کی صورت میں 60 ہزار افراد کے ویزے بھی منسوخ کر دیئے گئے تھے۔ اگر ریاست واشنگٹن اور مینی سوٹا کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے کوئی تکلیف تھی اور وہ واشنگٹن شہر کی سہٹل وفاقی عدالت میں درخواست دائر کر بیٹھے تھے تو اس عدالت کے جج جیمز رابرٹ اسے قابل سماعت قرار دینے یا نہ دینے اور پھر اس کی سماعت کے حوالے سے اپنی فرسودہ اور پسماندہ عدالتی روایات کو ترک کر کے پاکستان کی روشن عدلیہ کے روشن ترین ستارے عزت مآب سابق چیف جسٹس آف پاکستان (جنہیں اس منصب جلیلہ پر رہنے کا طویل ترین تجربہ حاصل تھا) افتخار محمد چودھری کی عدلیہ کی طاقت کا اندازہ کر لیتے اور اپنی طاقت کو ایکسپلائٹ کرنے کا ہنر سیکھ لیتے تو نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ ان کو نام نہاد جج کے لقب سے یاد کرتے ان کے فیصلے پر برہم ہوتے انہیں دھمکیاں دیتے، انکے فیصلے کے خلاف اپیل کرتے بلکہ یہ سات مسلم ممالک بھی اپنی امریکہ یاترا کے بارے میں فیصلے کا انتظار کرتے۔ وہ پاکستان کی عدلیہ کی طرح وکےلوں پر سوالات کے متعلقہ اور غیر متعلقہ امور پر سوال کرتے۔ نو منتخب صدر کے خلاف فیصلہ دینے کی بجائے اس کے کارندوں کو تڑی لگاتے کہ فیصلہ کرتے وقت کسی کے مرتبے کا خیال نہیں رکھا جائیگا خواہ امریکہ کا طاقتور ترین صدر ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ یہ بھی تڑی لگا سکتے تھے کہ جا کر صدر کو بتا دو کہ ”نواں آیا ایں سوہنیا“ اور پھر اپنے نام کے حوالے سے ٹکر چلواتے اور عدالتی نظام میں ایسی بہتری لے آتے کہ آج اس نظام کے پسماندہ ہونے اور جج صاحب کے نام نہاد جج ہونے پر انہیں کسی قسم کی خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ وہ عدالت سے باہر عدالت لگا کر ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کرتے کہ ٹرمپ سمیت پوری سیاسی مشینری ان کے فیصلے کا انتخابات کے نتائج سے زیادہ بے چینی سے ذکر کرتی مگر انہوں نے تو قانون اور آئین کو نافذ کرنے میں نہ ذاتی پبلسٹی کا موقع ملنے کا ہنر حاصل کیا اور نہ اپنے طاقتور بلکہ طاقتور صدر سے بھی طاقتور ہونے کا ابلاغ کرایا اور تین دن میں فیصلہ سنا دیا۔ ایگزیکٹو آرڈر کو معطل کر دیا۔ ایک جج سے یہ کوتاہی ہو گئی کہ وہ قانون اور آئین کی پاسداری میں یہ بھی بھول گیا کہ ابھی تو صدر نیا بنا ہے اسے موقع دیا جائے۔ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آیا ہے اس کے خلاف فیصلہ پر اس کے ووٹر مشتعل نہ ہو جائیں ملک میں امن و امان تباہ نہ ہو جائے۔ صدر کا کیا بنے گا، جمہوریت کا کیا بنے گا، میڈیا کیا کہے گا، سینئر جوڈیشری کیا سوچے گی، کتنے ہی سوال ہیں جو ہمارے ایسے پسماندہ ممالک کے روشن خیال ججوں کے ذہن میں آتے ہیں امریکہ کے ججوں کے ذہن میں یہ سوال کیوں نہ آئے انہوں نے خود کو پورے معاشرے سے الگ تھلگ کر کے کیوں فیصلہ کیا‘ نہ ملک کا سوچا نہ اس کی سالمیت و حفاظت جس پر بلا سوچے سمجھے صدر ٹرمپ نے انتہائی اقدام کیا ۔مگر اب یہ قدم اٹھ چکا تھا اس کی عزت کی پاسداری ہمارے اداروں کی طرح امریکہ کے سارے اداروں پر ہوتی تھی۔ چلیں اگر ایک جج سے یہ کوتاہی ہوئی تھی کہ جب ٹرمپ اپیل کور ٹ میں گیا وہاں تو جج صاحبان کے پاس اس ”حریت فکر“ کے تدارک کا موقع تھا۔ نائنتھ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اور اپنے انتیس صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھ دیا کہ لوئر کورٹ کی جانب سے کئے گئے صدارتی حکم نامے کی معطلی کے فیصلے کو تبدیل نہیں کر سکتی اتنی بے اختیار عدالت خدا کا شکر ہے ہمیں میسر نہیں یہاں تو ایک قطری خط کو متنازعہ قرار دیں تو دوسرا قطری خط آ جاتا ہے ۔ پورے انہماک سے پانی میں مدھانی ڈال کر مکھن نکالنے کی کوششیں مدعی، مدعا علیہ اور عدلیہ کی مشترکہ کاوشیں بے شک اہل وطن کے اعصاب شکنی کاباعث بنی رہی ہوں بے شک ججوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کے خلاف کھلی جارحیت کرنے والوں سے کسی قسم کی باز پرس نہ کرنے والا مثالی تدبر دکھانے پر عدلیہ کے ارکان کو تنقید مزید کے مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہو۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ بات زرداری کے سرے محل کی ہو یا نواز شریف کے لندن کے فلیٹوں کی ہماری عدلیہ امریکہ کی عدلیہ کے مقابلے میں زیادہ تدبر اور فراست کا مظاہرہ کر چکی ہے نہ زر داری کو بطور صدر ہاتھ ڈالا بلکہ اسے سابق صدر ہونے پر بھی اسکے احترام میں کمی نہیں کی گئی نہ نواز شریف پر ان کی اپنی تقاریر میں اگرچہ فیصلہ کرنے کیلئے کافی نہیں لیکن جس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جاتا رہا ہے اگر امریکی عدلیہ بھی اپنی پسماندگی کو ترک کر کے روشن خیالی ، حب الوطنی ، جمہوریت پسندی اور صدر کے احترام کو ملحوظ رکھتی تو ٹرمپ اپنی مدت صدارت میں اپنے خلاف فیصلہ نہ سنتا۔ لمبی تاریخیں نہ بھی دی جاتیں یہ تو کہا جا سکتا کہ جن پر پابندی لگی ہے ان میں سے تو کوئی امریکہ آ کر اس پابندی کو چیلنج نہیں کر رہا یہ آپ کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور اگر کوئی جواب آں غزل کے طور پر اس وکیل کے مقابلے میں یہ دلیل لے آتا کہ جن پر پابندی لگی ہے وہ بھلا کیسے امریکہ آ کر اس کی کسی عدالت میں اس پابندی کو چیلنج کر سکتے ہیں اس پر عدالت کہہ سکتی تھی اس میں عدالت کا تو کوئی قصور نہیں ہے مگر وہ تو صدر کی طرف سے یہ ریمارکس سننے پر تیار ہو گئے کہ فیصلہ شرمناک تھا اور یہ دھمکیاں بھی سننے پر آمادہ ہو گئے ”تمہیں دیکھ لونگا“ وطن دشمنی کے الزامات کو بھی سہہ گئے اور بڑی عجلت سے ایک اور عجلت میں کئے گئے آرڈر پر عمل درآمد روک دیا۔
ٹرمپ کو مشورہ دینا تو نہیں چاہئے کیونکہ مشورہ کے بارے میں ایک امریکی دانشور بوسکالیو کا کہنا ہے
Never Give Advice Idiot Don't Heed It And Wise Don't Need It.
یعنی کبھی نصیحت نہ کریں کیونکہ احمق کے پلے نہیں پڑے گی اور عقلمند کو اس کی ضرورت نہیں۔ مگر پھر بھی اس قول زریں کو نظر انداز کرتے ہوئے مشورہ دے رہا ہوں کہ وہ اپنی سینئر جوڈیشری کو افتخار چودھری کے پاس بھیجے۔ امریکہ عدلیہ کے ججوں کو ایسے کارآمد نسخے ہاتھ آئیں گے کہ وہ یہاں اور ٹرمپ وہاں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔تاہم جمہوریت ڈی ریل ہونے سے مستقل بچ جائیگی وہ جمہوریت پاکستان کی ہو یا امریکہ اور ٹرمپ کی مدت اقتدار امن سے گزر جائیگی کم از کم عدلیہ کی طرف سے ۔