آرمی چیف، وزیر دفاع اور حافظ محمد سعید
یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا کیس منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، ورنہ تو ہم یہی سمجھے تھے کہ شاید یہ فائل بھی بند ہوگئی ہے، اور کبھی نہیں کھلے گی لیکن آرمی چیف کی یہ بات سن کر قوم کو تھوڑا حوصلہ ہوا ہے کہ ملک کا امن خراب کرنیوالوں کو واقعتاً کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ دشمن وطن عزیز کی طرف دوبارہ میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب پہلا حکم جاری کیا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے باعث جو قبائل عارضی طور پر بے گھر ہوئے تھے انکی اپنے گھروں کو باعزت واپسی کا کام بروقت مکمل کیا جائے اور ان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ یہ نئی قیادت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں تھا، انہوں نے یہ کام پورا کیا اور اب تک 80فیصد سے زائد قبائلی اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ اب جبکہ دہشتگردی کی تازہ لہر میں انکے سامنے مزید چیلنجز ہیں تو قوم یہی امید کر رہی ہے کہ وہ ہر امتحان میں پورا اُترنے کی کوشش کرینگے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ دھیمے مزاج کے آفیسر ہیں، ان کی طبیعت میں جلد بازی کا عنصر نہیں ہے، وہ ہر کام کو اپنے انداز میں کرتے ہیں، اور جنرل (ر) راحیل شریف کی طرح دشمن کو باز کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں سے ملنے اور اُن کا حوصلہ بڑھانے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ روز لائن آف کنٹرول کا دورہ کیااور بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ کا منہ توڑ جواب دینے کی ہدایت بھی کی۔ جنرل قمر باجوہ نے کہا ہے کہ ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی انکی اولین ترجیح ہے۔ پاک فوج کی مہارت، شجاعت اور لگن زمانے بھر میں مشہور ہے۔ دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر اور ورکنگ باو¿نڈری پر جو اشتعال انگیز کارروائیاں کر رہا ہے انکے مقاصد بادی النظر میں یہ ہیں کہ پاکستان کو کسی بڑی جوابی کارروائی پر اکسائے تاکہ بین الاقوامی کمیونٹی کے سامنے مظلومیت اور پاکستان کی جارحیت کا ڈھنڈورا پیٹ سکے۔ کشمیریوں کی جدوجہد اور ان پر بھارتی فوج کے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانا اور بھارت کے بی جے پی سمیت پاکستان دشمن عناصر کو یہ باور کرانا کہ بھارت پاکستان کو سزا دے رہا ہے۔ لیکن بھارت تادیر یہ پالیسی جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ورکنگ باو¿نڈری اور لائن آف کنٹرول کی صورتحال سے آگاہی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور یہ بات بھارت بھی اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے کسی دن روز کی چھیڑ چھاڑ سے بھارت کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اسکے باقی مراحل میں کومبنگ آپریشن (خصوصاً پنجاب اور بلوچستان میں) اور کراچی آپریشن کو تکمیل تک پہنچانا ہے۔ بلوچستان میں یہ آپریشن فراریوں کو واپس پرامن زندگی گزارنے کی ترغیب کے ساتھ جاری ہے۔ اس آپریشن کا جلد مکمل ہونا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ البتہ پنجاب میں کومبنگ آپریشن ابھی تک اس سطح پر جاری نہیں ہو سکا ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں (حال ہی میں کالعدم قرار دی جانےوالی تحریک طالبان کی تنظیم ) جماعت الاحرار کی بڑی تعداد میں کمین گاہیں ہیں۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خفیہ سیل بھی ہیں۔ کراچی آپریشن کے نتیجے میں اگرچہ بھتہ خوری، دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ اور اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آ چکی ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان وارداتوں کے کتنے کارندے گرفتار ہوئے اور کتنے فرار ہو کر روپوش ہوئے۔ جو ملزم گرفتار ہوئے ان کیخلاف عدالتی کارروائی سست روی کا شکار ہے۔ جو بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا تھا اس کی تفتیش آگے نہیں بڑھ سکی اور مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا ہے۔ دہشتگردی پیسے کا کھیل ہے۔ پیسہ میگا کرپشن سے آتا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے دہشتگردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ضروری ہے۔ یہ ایک صبر آزما اور مسلسل عمل ہے اور اسکی کامیابی کیلئے پراسیکیوشن اور عدالتی نظام کی بہتری بھی ضروری ہے۔ اسکے بغیر ملک کی اندرونی اور بیرون سلامتی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ جنرل قمر باوجوہ نے کہا ہے کہ ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی انکی اولین ترجیح رہے گی۔ امید ہے کہ اندرونی سلامتی کی راہ میں درپیش مسائل انکے سامنے رہیں گے اور جلد مکمل کیے جائیں گے۔
لیکن اس نازک صورتحال میں جب ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور پوری دنیا ہماری حکومت پر نظریں گاڑے کھڑی ہے، پاکستانی حکومت دہشتگردی کے خلاف کیا اقدامات کرنے جا رہی ہے، پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھلتے نظر آرہے ہیں اور قوم بھارتی جاسوسوں کا نیٹ ورک ٹوٹنے کی خواہاں ہے تو ایسے میں ہمارے وزیر دفاع نے جرمنی کے شہر میونخ میں سکیورٹی کانفرنس 2017ءمیں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حافظ محمد سعید معاشرے کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ”ماضی میں بھی لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور یہ جماعتیں پاکستان اور پاکستان سے باہر بالواسطہ دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں۔ لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ دہشتگردی کو ہر جگہ سے ختم کیا جائے، چاہے وہ پاکستان ہو، افغانستان ہو، اور اس لیے ایسے اقدامات لینے ضروری تھے اور ہم آئندہ بھی لیتے رہیں گے۔
لیکن قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا بھر کے کسی بھی فورم میں اگر حافظ سعید یا کسی دوسرے رہنما پر پابندیوں کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو چین اُس کو ویٹو کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ان شخصیات کےخلاف ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائے جائیں لیکن ہمارے حکمران نہ جانے کیوں خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑا چلانے کی مہارت رکھتے ہیں حالانکہ انہیں اس سوال کے جواب میں بھارت کے جاسوسوں کا ذکر کرنا چاہیے تھا، اور یہ کہا جانا چاہیے تھے کہ یہ بھارت کی جانب سے محض الزام تراشی ہے۔ انہیں حافظ سعید کی ملک کیلئے خدما ت کا اعتراف کرنا چاہیے تھا اور یہ فرمانا چاہیے تھا کہ جب حکمرانوں کو پانامہ لیکس سے فرصت نہیں تھی اور تھرپارکر کا ہندو و مسلم بھوک اور پیاس سے مر رہا تھا تو حافظ سعید کے حکم پر وہاں راشن و پانی لیکر اسی کے خطرناک کارکن معاشرے میں خطرہ پھیلانے وہاں پہنچے تھے۔ جب پانی کے چند گھونٹ اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر بلوچستان میں لوگو باغی ہو رہے تھے تو وہاں کنویں بنا کر انہیں پاکستانیت کی تعلیم دیکر خطرناک ترین افراد بنایا۔ سیلاب و زلزلہ جیسی آفات میں جب حکومتی ایجنٹ بیرونی امداد سے اپنے باتھ روموں کی تزئین و آرائش میں مصروف تھے تب حافظ سعید کے حکم پر اسکے معاشرے کیلئے خطرہ کارکنان اپنے جسموں پر وزن اٹھائے پہاڑوں اور دریاﺅں کی موجوں کو زور بازو سے عبور کر رہے تھے۔ ایل او سی پر جب بھارتی جارحیت سے پاکستانی بے گھر تھے تو منتخب وزراءسرکاری فنڈ سے سینکڑوں ایکڑ اراضی خرید رہے تھے اور حافظ سعید کے خطرناک کارکن وہاں خوراک، لباس اور رہائش کی ساتھ ساتھ ادویات لیے لوگوں کی مدد کیلئے کھڑے تھے۔ اس طرح کا بندہ واقعی خطرناک ہوتا ہے۔ وہ ایک مستحکم اور آزاد پاکستان کی بات کرتے ہیں بلکہ اس کیلئے تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی جدو جہد کرتے ہیں۔ وہ ملک کے نوجوانوں کو داعش جیسے عفریت کی خوراک بننے سے روکنے کی خاطر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، وہ دہشت گردی کیخلاف پورے قد سے کھڑے ہونےوالے راہنما¶ں میں سے ہیں، اور اسکے اصل مجرموں کی نشان دہی کرنے سے باز نہیں آتے۔ حکومت کی ضرورت ایسی قیادت ہے جو بھارت کے ہر بم دھماکہ کے بعد ایک مدرسہ اڑا دینے کی بات کرے اور اتحاد امت میں فرقہ واریت کا زہر گھولے۔
ہمیں انکی کشمیر کے حوالے سے خدمات کا قومی سطح پر اعتراف کرنا چاہیے۔
ہمیں عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہیے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں۔ بھارت نے طاقت کے زور پر کشمیر میں قبضہ کر رکھا ہے۔ وہاں آزادی کی تحریکوں کو طاقت سے کچل رہا ہے، کشمیر کے عوام سے رائے لی جائے کہ وہ کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یہ اُن کا بنیادی حق ہے۔ میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں لانگ ٹرم پالیسیاں بنانی چاہئیں اور حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ جگہ جگہ بھات بھات کی بولیاں بولنے سے بہتر ہے کہ قومی لائحہ عمل بنایا جائے اور پالیسی بیان ہی دیا جائے۔ وزیر دفاع کے بیان جیسے بیانات ملک کو کمزور کرتے ہیں اور یہ بات عالمی میڈیا کی زینت بن جاتی ہے کہ واقعتاً پاکستان خطے میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو فروغ دے رہا ہے جس اس ملک و قوم کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہیں!!!