جمعة المبارک ‘ 26 جمادی الاوّل 1438 ھ ‘24 فروری 2017ئ
مشرف نے وطن واپسی کے لئے وزارت دفاع سے سکیورٹی مانگ لی۔
سابق صدر کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو وزارت داخلہ پر اعتماد نہیں اسلئے وزارت دفاع سے انہوں نے سکیورٹی طلب کی ہے۔ صرف یہی نہیں عدالت سے بھی کہا کہ پیشی کے بعد انہیں واپس علاج کے لئے بیرون ملک آنے جانے کی بھی اجازت ملنی چاہئے۔ انہیں سکیورٹی فراہم کرنے میں کیا برائی ہے۔ انہوں نے جتنی اور جس طرح کی سکیورٹی ملک واپسی پرسابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو فراہم کی تھی‘ وہ بھی کم از کم سکیورٹی کے مستحق ہیں۔یہ الگ بات خود ساختہ جلاوطنی اور اتنے نخرے اور یہ فرمائشیں کمال کی بات ہے۔ معلوم ہوتا ہے جناب کا واپس وطن آنے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں۔ اگر مشرف صاحب آنا چاہتے ہیں تو جی آیاں نوں۔ انہیں کس نے روکا ہے۔ یہاں کی عدالتیں اور جیلیں کب سے ان کا انتظار کر رہی ہیں بلکہ سچ کہیں تو ان کی راہ میں پلکیں بچھائے ان کی منتظر ہیں۔ ان کی تو
پیاسی نگاہوں میں تیرا انتظار ہے
آ جا تیری یاد میں دل بے قرار ہے
والی حالت ہے۔ علاج کیلئے بیرون ملک آنے جانے والی اجازت بھی مل ہی جائے گی۔ بس ایک بار وہ دل مضبوط کر کے پاکستان آئیں تو سہی....
٭٭٭٭٭٭
بی جے پی کی حکومت نے زائرین اجمیر شریف کے اناساگر جھیل میں وضو اور غسل پر پابندی لگا دی
برا ہو اس نفرت کا جو انسان کو ایسے ایسے جاہلانہ فیصلوں پر مجبور کر دیتی ہے کہ دوسروں کی بات چھوڑیں خود اس کے اپنے بھی ایسے لوگوں پر نفرتیں بھیجتے نظر آتے ہیں۔ اب اجمیر شریف کے 805 ویں سالانہ عرس کی تقریب قریب ہے۔ اس موقع پر آنے والے لاکھوں زائرین جن میں ہندو مسلم‘ سکھ اور عیسائی ہر فرقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ مودی سرکار بجائے اس کے کہ سہولتیں فراہم کرتی الٹا ان سے غسل اور وضو کی سہولت ہی چھین لی ہے۔ انتہا پسند بی جے پی کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کے غسل اور وضو سے اناساگر جھیل کا پانی آلود ہونے کا خطرہ ہے۔ حیرت کی بات ہے یہ خطرہ انہیں ہر سال گنگا میلہ اور ہر چار سال بعد لگنے والے کھمب میلے میں اور لاکھوں انسانوں کے روزانہ گنگا میں اشنان کے لئے ڈبکیاں لگانے کے عمل میں کیوں نظر نہیں آتا۔
جب گنگا میلی نہیں ہوتی اتنی آلودگیوں کے بعد تو اناساگر جھیل 3 روز میں کیسے آلودہ یا گندی ہو جائے گی۔ یہ جھیل تو عطیہ ہی خواجہ اجمیر کا ہے۔ ان کے زائرین پر ہی اس کے استعمال پر پابندی کیوں۔ گنگا ہو یا اناساگر جھیل یہ سب انسانوں کے لئے ہی بہتی ہیں۔ کہیں غسل کیا جاتا ہے تو کہیں پاپوں سے نجات کے لئے اشنان۔ ان کے استعمال پر پابندی لگانے کا حق کسی کو نہیں ہوتا۔
مردان میں عمر رسیدہ ٹیکسی ڈرائیور پتھر چبانے کی عادت میں مبتلا۔
لوہے کے چنے چبانا تو ایک محاورہ ہے اور روزانہ کروڑوں پاکستانی کسی نہ کسی بات پر لوہے کے چنے چباتے بھی ہیں مگر حقیقی معنوں میں پتھر چبانے والا یہ بندہ پہلا نظر آیا ہے جو عادت سے مجبور ہو کر روزانہ پتھر چباتا ہے۔ گویا پتھر نہ ہوئے دال سنگر ہو گئی۔ موصوف روزانہ ایک آدھ پتھر نہیں پورے آدھ پا¶ پتھر جب تک چٹ نہ کر لیں انہیں سکون نہیں آتا بلکہ فرماتے ہیں بنا پتھر کھائے ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ اسکے باوجود نہ صرف حضرت کے دانت بلکہ آنتیں بھی سلامت ہیں اور گردے بھی بخیر و عافیت ہیں یعنی انہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں جو پتھری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب خدا جانے ان کے پیٹ میں ایسی کون سی کرشنگ مشین فٹ ہے کہ لکڑ ہضم پتھر ہضم والا محاورہ ان پر فٹ آتا ہے۔
یہ تو خدا کا شکر ہے انہیں روزی اور روزگار میسر ہے۔ ہمارے ہاں تو ایسے لاکھوں افراد ہیں جو روزگار نہ ہونے یا غربت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھتے ہوں گے مگر ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو حقیقتاً پتھر چبا سکتا ہے۔ کیسے کیسے کمال کے لوگ ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی....
٭٭٭٭٭٭
القاعدہ نے را¶ انوار سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔
ایسے اعلانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردوں کی ناک میں نکیل ڈالی جا چکی ہے اور اب وہ عالم وحشت میں اِدھر اُدھر سر پٹک رہے ہیں۔ کراچی میں پولیس سے لاکھ برائیاں منسوب ہیں۔ ان پر لگے الزامات کا دفاع کرنے کا کسی کو شوق نہیں۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ کراچی پولیس کے نڈر افسران اور سپاہیوں نے ہی کراچی جیسے انٹرنیشنل شہر میں عالمی دہشت گرد تنظیموں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا ہے۔ اچھے پولیس افسر اور اہلکاروں نے دہشت گردی کی لڑائی میں اپنی جان بھی لڑا دی۔ جو قابل تحسین ہے۔
لاہور ہو پشاور‘ کوئٹہ یا کراچی جہاں بھی پولیس والوں نے عوام کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی بازی لگائی وہاں انہوں نے عوام سے محبتیں ہی سمیٹی ہیں۔ را¶ انوار ان پولیس والوں میں شامل ہیں جو موت سے آنکھیں لڑانے سے نہیں ڈرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چن چن کر دہشت گردی میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچا رہے ہیں جو دہشت گرد تنظیم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ اس لئے اب اسے را¶ انوار سے بدلہ لینے کا بیان دینا پڑا۔
یہ بیان القاعدہ دہشت گردوں کی پسپائی اور پولیس والوں کی پیشقدمی کا اعلان ہے۔ امید ہے را¶ انوار ایسی گیدڑ بھبھکیوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور بہادری سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوشاں رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭