• news
  • image

سپریم کورٹ کا متعلقہ دستاویزات کا مفصل جائزہ لےکر پانامہ کیس کا فیصلہ صادر کرنےکا عندیہ

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ نے پانامہ کیس کی سماعت مکمل کرکے گزشتہ روز اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا
پانامہ کیس میں فریقین کو ان کی منشاءو مرضی کے مطابق دلائل دینے کا موقع اور وقت فراہم کیا گیا۔ عدالت میں ہزاروں کے حساب سے دستاویزات پیش کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے اندر ایک عدالت لگتی تھی تو دوسری سپریم کورٹ کے باہر۔ فریقین ایک دوسرے پر برستے تھے۔ کچھ لوگ آج ہی اپنی مرضی کا مختصر فیصلہ صادر ہونے کی توقع لگائے بیٹھے تھے تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے قرار دیا گیا کہ تفصیلی فیصلہ دستاویزات کا جائزہ لے کر جاری کیا جائےگا۔ آج ملک ایک بار پھر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت مکمل ہونے سے فریقین کی طرف سے میڈیا میں ایک دوسرے پر زبان درازی اور بیانات کی سنگ باری سے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت تھی جس سے اب نجات ملی ہے۔ ملکی حالات سب کے سامنے ہیں۔ فیصلہ جو بھی آتا ہے اسکے نتائج دوررس ہوں گے۔ پانامہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین کیس ہے۔ یہ کیس سپریم کورٹ لے جانیوالے وزیراعظم نواز شریف کےخلاف فیصلے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں فریقین کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات اور انکی شہادتوں کی روشنی میں بہرصورت میرٹ پر ہی فیصلہ کرنا ہے جس کے تحت کسی فریق کے لئے خوشی اور دوسرے کیلئے ناکامی اور غمی کی فضا بنتی ہے تو یہ فریقین کا اپنا معاملہ ہے۔اسے ملک کی موجودہ نازک صورتحال پر منطبق نہیں ہونے دینا چاہیے۔ آج کے حالات میں یکجہتی و یگانگت کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ یقیناً دستاویزات کا بغور ‘ مفصل اور تسلی سے جائزہ لے فیصلہ صادر کرےگی جس کےلئے کافی وقت درکار ہوگا۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس وقت تک اپریشن ردِفساد کے باعث دہشت گردی کے ناسور میں کمی آچکی ہوگی اور حالات کافی بہتر ہو چکے ہوں گے۔
ایس ایم ایس پر ہیجان خیز افواہیں
سائبر ایکٹ کو بروئے کار لایاجائے
موبائل فون میں ایس ایم ایس کا آپشن کارآمد اور بہت سے لوگوں کےلئے افادیت کا حامل ہے مگر اسکے غیر ضروری اور غلط استعمال سے کئی قباحتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ان میں ایک بے بنیاد افواہیں پھیلانا بھی شامل ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی حادثہ یا دھماکہ ہوتا ہے تو بجائے اپنے عزیز واقارب کی خیریت دریافت کرنے کے کئی لوگ افواہوں کا طوفان اٹھا دیتے ہیں۔ ایسا ہی گزشتہ روز لاہور میں ڈیفنس دھماکے کے بعد ہوا۔ بعض لوگو ں نے افواہ پھیلا دی کہ ایک دھماکہ گلبرگ میں بھی ہوگیا ہے‘ پھر اقبال ٹاﺅن اور سروسز ہسپتال میں دہشت گردی کی افواہوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایسی افواہیں افراتفری میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ سائبر ایکٹ کے تحت ایسی افواہیں پھیلانے والوں کا محاسبہ ضروری ہے۔
ینگ ڈاکٹرز کا ہڑتال
ختم کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ
سروسز ہسپتال کے ینگ ڈاکٹرز نے ڈیفنس دھماکے میں زخمی ہونیوالوں کی نگہداشت اور فوری علاج معالجہ کی خاطر گزشتہ تین روز سے جاری اپنی ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کردیا جو قابل ستائش اقدام ہے۔ ہڑتال کے دنوں میں نوجوان مسیحاﺅں کا جورویہ سامنے آیا، اسے کسی طور انکے مقدس پیشہ کے شایان شان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ہسپتال کی ایمرجنسی اور آﺅٹ ڈور بند رکھنے سے مریضوں کی خاصی تعداد جن میں مقامی کے علاوہ دور دراز کے علاقوں سے آنیوالے مریض بھی شامل تھے‘ علاج معالجے سے محروم رہی اور انکے لواحقین کو مشکلات کا سامنا رہا جو ہسپتال میں دربدر ہوتے رہے۔ افسوسناک امر ہے کہ ہڑتال کے شور شرابے میں نوجوان مسیحا، اپنا انسانی، اخلاقی فرض اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں تک بھلا بیٹھے اور انکی اس غفلت اور بے حسی نے انکے اپنے ہسپتال کے ایک ملازم کی جان لے لی جو25سال سے یہاں کام کر رہا تھا اور گزشتہ چند روز سے انکے زیر علاج تھا۔ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے میں کوئی برائی نہیں لیکن اسکے ساتھ اپنے فرض سے کوتاہی بھی کوئی اچھا عمل نہیں کہلاتا۔ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ مناسب ہوتا کہ کرپشن کا الزام تھا تو اپنی صفائی کیلئے قانونی جنگ لڑی جاتی چہ جائیکہ مجبور اور بے بس مریضوں کو غیر ضروری آزمائش اور ابتلا میں ڈالا جاتا اور انکے پریشان حال لواحقین کو ناحق مزید پریشان کیا جاتا۔ہڑتال پر جانیوالے ڈاکٹروں کے یقیناً کئی جائز مطالبات بھی ہونگے مگر اس کیلئے ہڑتال پر جانے اور ہسپتال بند کرنے کا راستہ اختیار کرنا کسی صورت دانشمندی قرارنہیں دیا جا سکتا۔ مطالبات منوانے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ مسیحاﺅں کو اپنے مقدس پیشے کے تقاضے کے برعکس ہسپتال بند کرنا ہرگز زیب نہیں دیتا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن