یہ فساد ختم ہونا چاہئے
جس فساد کو ختم کرنے کے لئے آپریشن ”ردالفساد“ شروع کیا گیا ہے یہ گزشتہ تیس برس سے اس خطے میں پھیلتا چلا آ رہا ہے جب سوویت یونین کی سرخ فوج افغانستان میں داخل ہوئی تھی تو اسے افغانستان میں شکست دینے کے لئے ابتدا میں تو چند افغان مہاجرین نے سرخ فوج کی مزاحمت شروع کی تھی لیکن پھر امریکہ مغربی ممالک پاکستان‘ سعودی عرب سمیت کئی اسلامی ممالک سوویت فوج کے خلاف جہاد میں شریک ہو گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے مشترکہ طورپر افغان جہاد کو پروان چڑھایا۔ کیمونسٹ فوج کے خلاف مجاہدین کی سات جماعتوں کا متحدہ پلیٹ فارم بنایا گیا۔ مجاہدین کی جماعتوں کے اس سات جماعتی اتحاد کو پاکستان‘ امریکہ اور اسلامی ملکوں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ افغان مجاہدین کو لڑنے کی تربیت دی جاتی تھی اور انہیں اسلحہ بھی دیا جاتا تھا۔ 1979ءسے لے کر 1985ءتک سوویت فوج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل رہی تھی جس پر امریکہ نے افغانستان میں برسرپیکار مجاہدین کو سٹنگرز میزائل فراہم کرنا شروع کر دئیے۔ یہ میزائل بہت موثر ثابت ہوئے۔ ان HEAT SEEKING میزائلوں نے سرخ فوج کو افغانستان میں "BLEED" کرنا شروع کیا۔ سوویت فوج افغان مجاہدین کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کر رہی تھی جس سے مجاہدین کو سخت نقصان ہو رہا تھا۔ سٹنگرز میزائلوں سے لیس ہونے کے بعد مجاہدین نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اور سوویت فوج کو ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑا۔ بالآخر سوویت فوج پسپا ہو گئی۔ افغانستان سے سوویت فوج کی پسپائی سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن گئی۔
افغانستان سے سوویت فوجوں کو نکال باہر کرنے کے لئے جہاد کا ہتھیار استعمال کیا گیا‘ جہادی تنظیموں کو منظم کیا گیا‘ دنیا بھر سے جہادیوں کو افغانستان میں جہاد کے لئے لایا گیا۔ شیخ اسامہ بن لادن بھی افغان جہاد میں حصہ لینے اپنے ساتھیوں اور مالی وسائل کے ساتھ افغانستان آ گئے۔ مجاہدین جب سوویت یونین کی EVIL EMPIRE برائی کی ریاست کو شکست دے چکے تو پھر ان مجاہدین نے جہاد کا رخ دوسری بڑی سپر طاقت امریکہ کی طرف کر دیا اور نائن الیون ہو گیا۔
”نائن الیون“ کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی۔ وہ مجاہدین جنہیں امریکہ اللہ کے سپاہی سولجرز آف اللہ قرار دیتا تھا وہ دہشت گرد قرار پائے۔ نائن الیون کے بعد ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ایک عالمی اتحاد قائم کیا گیا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس عالمی اتحاد کا ایک اہم رکن بن گیا۔ نائن الیون ہی امریکہ میں تو دہشت گردی کا ایک واقع ہوا تھا لیکن پاکستان اور افغانستان میں ”نائن الیون“ ایسے ان گنت واقعات ہو چکے ہیں جن میں لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں۔ افغانستان میں تو لاکھوں افغان شہری اور سیکورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب پاکستانی شہری‘ فوجی اور پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں پاکستان میں دس سال پہلے شروع ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آپریشن راہ راست اور اس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کئے گئے۔ ”ضرب عضب“ شروع ہونے کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان میں قائم وہ ٹھکانے تباہ کئے گئے جہاں پاکستان میں خود کش حملوں اور تخریب کاری کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ ”ضرب عضب“ میں پاکستان کے اندر حملے کرنے والوں پر کاری ضرب لگائی گئی لیکن وہ عناصر ابھی مکمل طورپر ختم نہیں ہو سکے جو پاکستان میں سیکیورٹی فورسز‘ پولیس‘ عام شہریوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ تیس برس میں پاکستان مسلسل اس بحران کی لپیٹ میں ہے جو افغانستان سے شروع ہوا تھا۔ جب سوویت فوج افغانستان میں تھی تو پاکستان میں اس دور میں دھماکے ہوتے رہے اس وقت سوویت ایجنسی ”کے جی کے“ افغانستان کی ”خاد“ کے ساتھ مل کر پاکستان میں دھماکے کرا رہی تھی۔ یہ دھماکے پاکستان کے کئی شہروں میں کرائے گئے سوویت ایئر فورس کے طیارے پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں بمباری کرتے رہے۔ نائن الیون کے بعد طالبان اور ان سے وابستہ تنظیموں اور ان کے ہم خیالوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ بننے کی سزا دی پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ہو جس میں سیکیورٹی فورسز‘ پولیس‘ عام شہریوں‘ تاجروں اور سرکاری اہلکاروں کو نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ محسوس ہوتا ہے کہ ضرب عضب نے دہشت گردوں کو جو نقصان پہنچایا تھا اور انہیں منتشر کردیا تھا اس کے بعد وہ کچھ عرصہ تک پاکستان میں کوئی بڑی واردات کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن سال ڈیڑھ سال گزرنے کے بعدوہ پھر منظم ہونے لگے ہیں اور انہوں نے دوبارہ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں انہوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں حملے کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر اس پوزیشن میں آچکے ہیں کہ وہ اپنے منتخب کردہ ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ”ردالفساد“ آپریشن کے ذریعہ دہشت گردوں کی طرف سے پھیلائے گئے فساد کے خاتمے کے لئے پوری قوم کو کردارادا کرنا ہوگا محض فوج اور سیکیورٹی اداروں پر ذمہ داری ڈال کر حسب معمول معاملات زندگی کو چلانا ممکن نہیں ہوگا۔