درگاہ سیہون شریف چیف سیکرٹری سندھ سے سوال‘ کروڑوں کے نذرانے کہاں جاتے ہیں‘ آرمی چیف کو جواب نہ مل سکا: نثار
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے واضح کیا ہے سیہون شریف درگاہ کی سکیورٹی وفاق نہیں صوبے کی ذمہ داری تھی، دہشت گردی پر سیاست گناہ عظیم ہے،ہم نے صوبوں کو یہ بتادیا تھا اس جگہ سے دہشت گرد آئیں گے اور ان کی یہ حکمت عملی ہوگی ، اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا،سندھ کے چیف سیکرٹری سے آرمی چیف نے بھی سوال کئے اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، خبرنگار خصوصی کے مطابق چودھری نثار نے کہا آرمی چیف نے یومیہ کروڑوں روپے جو دربار پر نذرانے کے نام پر چلتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں تو اس پر چیف سیکرٹری سندھ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف نفسیاتی جنگ میں میڈیا پوری قوم کو متحد و یکجا کرنے میں فرنٹ لائن کردار ادا کرے جس طرح سانحہ اے پی ایس کے بعد میڈیا نے دہشت گردوں کے تشدد آمیز بیانیے کو رد کرتے ہوئے قوم کی آواز کو اجاگر کیا آج اسی جذبے اور عزم کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں میڈیا کی نمائندہ تنظیموں، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے عہدہ داروں پر مشتمل ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردوں کا مقصد قوم کے حوصلے کو متزلزل کرنا ہے لیکن ہم سب نے مل کر دشمن کے عزائم کو شکست دینی ہے اور اس ضمن میں میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ میڈیا نے نہ صرف تشدد پر مبنی گمراہ کن ایجنڈے کی حوصلہ شکنی کرنی ہے بلکہ قوم کے اصل تشخص اور قومی بیانیے کی بھرپور تشہیر کرنا ہے تاکہ آپریشنل جنگ کے بعد نفسیاتی جنگ میں بھی ہم کامیاب ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں میڈیا کے بھرپور کردار اور تعاون پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا میڈیا نے زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر اہم مسئلے پر حکومت اور ریاست کی رہنمائی کی ہے۔ میڈیا کے تجزیوں اور تنقید سے جہاں خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے وہاں اہم قومی مسئلوں پر اتفاق رائے اور مشترکہ حکمت عملی بنانے میں بھی معاونت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا آج دہشت گردی کے خلاف جنگ اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے اس نازک مرحلے پر قومی عزم کو اجاگر کرنے سے قوم مضبوط اور دہشت گردوں کو شکست ہو گی۔ ملک میں دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ہماری مشترکہ کاوشوں سے دہشت گردی کے گراف میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہاجون2013 میں روزانہ کی بنیاد پر پانچ سے چھ دھماکے ہونا معمول کی بات تھی۔ اب ہفتوں ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا 2013 اور 2016 میں دہشت گردی کے واقعات کا موازنہ کریں تو واضح بہتری نظر آتی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا اس کامیابی کا کریڈٹ کسی ایک فرد، ادارے یا کسی ایک حکومت کو قرار دینا بھی کسی صورت مناسب نہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا بطور وزیر داخلہ نے کہا بطور وزیر داخلہ دہشت گردی کے مسئلے پر نہ تو انہوں نے کبھی سیاست کی ہے اور نہ ہی کسی پر تنقید یا کسی کو مورد الزام ٹھہرایا کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں دہشت گردی پر سیاست کرنا سب سے بڑا گناہ اور ملک اور قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا پہلی دفعہ انہوں نے سیہون شریف واقعہ پر اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیا۔ وزیر داخلہ نے کہا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کے ذمہ دار اور آزاد میڈیا نے جس طرح اپنی پہنچ اور رائے عامہ کو استوار کرنے کی طاقت کا قومی مفاد میں استعمال کیا ہے آج اسی عزم اور جذبے کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ بعدازاں میڈیا نمائندہ تنظیموں کے وفد کے ارکان نے دہشت گردی کے مختلف پہلوﺅں سمیت اہم ملکی معاملات پر اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ملک کا ذمہ دار میڈیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی ذمہ داریاں قومی جذبے سے ادا کرتا رہیگا اور اس ضمن میں حکومت اور ریاست کی رہنمائی جاری رکھے گا۔ ملاقات میں وزیر مملکت مریم اورنگ زیب، پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ، پی آئی او راﺅ تحسین اور دیگر سینئر افسران بھی موجود تھے۔ میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے وفد میں سرمدعلی، میاں عامر محمود، شکیل مسعود، اعجازالحق، رمیزہ مجید نظامی، مہتاب خان، عمرمجیب شامی، شاہین قریشی، شہاب زبیری، طاہرفاروق، عبدالباسط کاظم خان اور دیگر عہدیدار شامل تھے۔ سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کو خصوصی دعوت دے کر مدعو کیا گیا۔ اے این این کے مطابق چودھری نثار نے کہا وزیراعظم نوازشریف بخار کی حالت میں سیہون شریف گئے اور زخمیوں کی عیادت کی اس موقع پر چیف سیکرٹری سندھ نے ہمیں روایتی بریفنگ دی جس کے بعد میں نے سوال کیا آپ دھماکے کے بعد کی صورتحال کو چھوڑیں پہلے کی صورتحال پر بریفنگ دیں ، اتنا بڑا سیکیورٹی لیپ کیوں ہوا؟ اس پر چیف سیکرٹری نے بتایا واک تھرو گیٹ خراب تھے بجلی نہیں تھی اور سیکورٹی عملہ بھی نہیں تھا ۔ وزیرداخلہ نے کہا اس بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سوال اٹھایا سیہون شریف مزار سے حکومت سندھ کو سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے جو زائرین نذرانے کی صورت میں دیتے ہیں تو یہ رقم کہاں جاتی ہے اس رقم کو سیکیورتی انتظامات پر کیوں استعمال نہیں کیا جاتا ۔ چیف سیکرٹری کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ انہوں نے کہا دہشتگردی کے واقعات میں کالعدم اور عسکریت پسند گروپوں کو میڈیا میں بالکل کوریج نہیں ملنی چاہیے ۔ میڈیا کو دہشتگردوں کو مکمل بلیک لسٹ کرنا چاہیے۔ ان کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے ایک وقت تھا طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے انٹرویو براہ راست چلا کرتے تھے آج صورتحال مختلف ہے۔ میڈیا کے تعاون کے بغیر دہشتگردی پر قابو نہیں پایاجاسکتا۔ میڈیا کو اتحاد یکجہتی کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ انہوں نے میڈیا کو پیغام دیتے ہوئے کہا تشویش کے بادلوں کو نزدیک نہ آنے دیں،عوام کو متحرک اور پر عزم کریں ،وہ جذبہ پیدا کریں، جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکے۔ 2016میں ریکارڈ کم ترین دھماکے ہوئے ۔ عالمی برادری نے بھی امن وامان کی صورتحال پر بہتری کا اعتراف کیا ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا ایک وقت تھا سال میں دو ہزار دھماکے ہوتے تھے اور اب یہ شرح کم ہو کر ڈھائی تین سو پر آگئی ہے ۔ دس سال بعد پہلی مرتبہ 2016پرامن ترین سال رہا ۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے دہشتگردی ختم کردی مگر کم ضرور ہوئی ہے،کچھ واقعات ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے بھی ہو جاتے ہیں ۔ چودھری نثار نے کہا سیہون شریف دربار کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سندھ حکومت کی تھی ۔ اس کے باوجود مجھ پر تنقید کی گئی اور کہا گیا وزیر داخلہ کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ چودھری نثار نے سوال کیا ’کیا ہماری وجہ سے وہاں واک تھرو گیٹس فعال نہیں تھے یا بجلی نہ ہونے کے ذمہ دار بھی ہم تھے؟'۔ انہوںنے کہا میں وزیراعظم کے ساتھ سیہون جانے کیلئے نور خان ائر بیس پر کھڑا تھا ٹی وی پر سندھ حکومت کا ترجمان میرے خلاف بول رہا تھا اور ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال رہا تھا ۔ انھوں نے کہا ہم دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں ۔ وزیر داخلہ نے صوبائی حکومتوں کے لیے جاری کی گئی ایڈوائزری پر بھی بات کی اور کہا 'ہم نے صوبوں کو یہ بتادیا تھا اس جگہ سے دہشت گرد آئیں گے اور ان کی یہ حکمت عملی ہوگی لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا'۔ساتھ ہی انہوں نے کہا 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا، یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اس کے 10 نکات صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہیں۔ این این آئی+آئی این پی کے مطابق چودھری نثار نے کہا ہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے۔ انہوں نے کہا ایک دفعہ ہم نے ایک جیل پر حملہ کی معلومات دیں اور اس پر اجلاس بھی ہوئے اور آخری اجلاس کے روز شام کو جیل پر حملہ ہوا جس میں لوگوں کو چھڑایا گیا جسکی میں نے تردید نہیں کی تھی۔ وزیر داخلہ نے کہا سانحہ سیہون کے بعد طبعیت کی خرابی کے باوجود وزیر اعظم نے دورہ کیا اور سکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے اجلاس کی صدارت کی ۔ انہوں نے کہا اس موقع پر بھی وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ پر تنقید کی گئی جس پر میں نے پہلی دفعہ کہا درگاہ کی سکیورٹی وفاقی یا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے کہا دورہ کے موقع پر اجلاس میں متعلقہ حکام سے سکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے بات چیت ہوئی اور چیف سیکرٹری سندھ سے دھماکے سے پہلے کے حالات معلوم کئے تو ان کا کوئی جواب نہ تھا جس پر آرمی چیف نے بھی کہا سکیورٹی کا مناسب انتظام کیا جانا چاہئے تھا۔ چودھری نثار نے کہا سےہون واقعہ پر سندھ حکومت کے ترجمان وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ پر تیر چلاتے رہے۔وہ بطور وزیر داخلہ کسی پر تنقید نہیں کرتے لیکن ساڑھے 3 سال میں پہلی بار سیہون واقعہ پر جواب دیا۔ وہ یہ بتائیں سیہون میں سکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی یا صوبائی حکومت کی۔وزیر داخلہ نے کہا 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا ¾یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا سیہون میں مزار پر واک تھرو گیٹس نہیں تھے، سکیورٹی نہیں تھی، بجلی نہیں تھی کیا یہ سب فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ صوبوں کو بار بار دہشت گردوں سے متعلق آگاہ کیا، صوبوں نے کسی قسم کا اقدام نہیں اُٹھایا۔
چودھری نثار