جرمن سکالراور نفاذ اردو کانفرنس
آئین پاکستان کی شق 251 پر عمل درآمد اور نفاذ قومی زبان کے حوالے سے 8 ستمبر 2015ء کو عدالت عظمیٰ پاکستان کا تاریخ ساز حکم نامہ کے باوجود 2016ء میں مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں نہ لئے گئے۔ اس حوالے سے عدالت عالیہ لاہور میں معروف قانون دان سیف الرحمن جسرا نے رٹ دائر کی جس پر لاہور ہائی کورٹ کے جج عاطر محمود نے دلائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا ۔ اس کے مطابق 2018ء میں ہونے والے مقابلے کے تمام امتحانات قومی زبان میں لینے کا حکم جاری کیا ۔ جناب جسٹس عاطر محمود نے سماعت کے بعد تحریری فیصلے میں کہا " سی ایس ایس کا امتحان سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے قومی زبان میں لیا جائے " لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے حکومت پاکستان کے لئے اس پر عمل درآمد کے راستے کو آسان اور کشادہ کر دیا ۔حکومت کے اس پر عمل درآمد سے آئین کا تقاضا پورا ہوتا ہے اور قومی زندگی کا رخ اس کے بنیادی مقاصد کی جانب متعین ہوگا ۔ مملکت خداداد میں بسنے والے بیس کروڑ افراد کو ان کی قومی زبان اور تشخص سے دور رکھنا اشرافیہ کی سازش کا شاخسانہ ہے تاکہ عام آدمی اپنے حقوق کے حصول اور فرائض کی بجاآوری میں سرخرو نہ ہو سکے کیونکہ کسی بھی غیر زبان میں انسان کی لیاقت و دانش نکھر کے سامنے نہیں آسکتی چند سالہ تجربے نے ثابت کر دیا کہ مقابلے کے امتحان کا انعقاد جب قومی زبان میں ہوا کرتا تھا تو کامیابی کے نتائج چالیس فیصد تھے جبکہ انگریزی میں امتحان منعقد کرنے کے فیصلے کے بعد یہ نتائج زوال پذیر ہوتے ہوئے دو فیصد کی شرمناک سطح پر آچکے ہیں ۔ نتائج کا تناسب کم ہونے کے باعث انتظامیہ کی بیشمار اہم عہدوں پر افسران میسر نہیں جو حکومت پر بھی سوالیہ نشان ہے؟ مگر اب بھی وطن عزیز میں ایسے مہاشے لکھاری پائے جاتے ہیں جو حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے اردو کو کم تر ثابت کرنے کی ضد پر قائم ہیں چند گھسے پٹے جملوں کو دہراتے ہوئے انگریزی الفاظ کے اردو معنی کی طعنہ زنی سے اپنے آقائوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا ۔اس روز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن سکالر ڈاکٹر کرسٹینیا اوسٹر ہیلڈ جو جنوبی ایشیاء کے حوالے سے ماہر لسانیات مانی جاتی ہیں نے کہا کہ مجھے اردو زبان میں بات کرتے ہوئے کبھی احساس کمتری نہیں ہوا ۔ انگریزی اردو سے اعلیٰ زبان نہیں ۔ پاکستان کے لوگوں کو اپنی زبان پر فخر ہونا چاہیے یہ ایک انتہائی المیہ ہے کہ پاکستان میں اپنی قومی اور مادری زبان بولنے والے لوگ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے مختلف پراجیکٹ اور تحقیقی کام جاری ہے ۔
پاکستان میں نفاذ اردو کے حوالے سے حکومتی سطح پر کام جاری ہے لیکن سست روی کا شکار ہے مگر عوامی سطح پر ہر علاقے اور ہر طبقے میں اس کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے ۔قومی زبان تحریک کے کارکنان ملک کے کونے کونے میں برسر پیکار ہیں یہی وجہ ہے کہ صادق آباد جیسے علاقے میں تحریک کے جواں سال رہنما مزمل عباس صائم نے گردو نواح میں سوشل میڈیا کے ذریعے حب الوطنی کی نئی روح پھونکی ان کی شب و روز محنت سے تحریک کو خاصی تعداد میں اساتذہ وکلاء اور علما ء کی حمایت حاصل ہوئی جن میں مظہر غفور ایڈوکیٹ ، محمد امین، عبدالستار چوہان اور ارتضی حنیف نمایاں ہیں جس کا ثبوت 19فروری بروز اتوار صادق آباد پریس کلب میں نفاذ اردو کانفرنس کا انعقاد ہے راقم الحروف ناسازی صحت کے باعث اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک روز قبل ہی رحیم یار خان جا پہنچا ۔ سٹیشن پر معروف شاعر پروفیسر شہزاد عاطر اور یاور عظیم موجود تھے ۔ راقم کو ایک ریسٹ ہائوس میں ٹھہرنا تھا مگر پروفیسر عاطر اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں کچھ دیر آرام کے بعد مختلف وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ شرو ع ہوا ۔ خانپور سے آنے والے وفد کی قیادت معروف روحانی سکالر مرزا حبیب کر رہے تھے جن کے ہمراہ بچوں کے میگزین کے ایڈیٹر یوسف وحید کے علاوہ نوجوان دانشور معظم خان اورارسلان اقبال کے وطن دوستی کے جذبات نے خاصا متاثر کیا ۔ دیگر لوگ بھی قومی زبان کے نفاذ میں سنجیدہ دکھائی دے رہے تھے ۔ 19فروری کی صبح پریس کلب صادق آباد پہنچے تو با نی تحریک پروفیسر اشتیاق ، پروفیسر غلام مصطفی لاہور سے پروفیسر سلیم ہاشمی ، ڈی جی خان سے واجدصدیقی اور خالق سکھانی پہلے سے موجود تھے ۔کانفرنس کا آغاز بروقت تلاوت کلام اللہ اور نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا ۔ پروفیسر سلیم ہاشمی نے اردو کی تاریخ اہمیت اور فصٗیلت پر سحر حاصل روشنی ڈالی ۔ راقم نے عام آدمی کو اپنے روز مرہ کام کاج میں قومی زبان کے عمل پر زور دیا یعنی ملاقاتی کارڈ گھر اور دفتر کی تختی خوشی غمی کے پیغامات اور سرکاری و نجی اداروں سے خط و کتابت میں انگریزی کی جگہ اردو کے استعمال پر زور دیا ۔ پروفیسر اشتیاق نے بتایا کہ سندھ میں ایف اے تک سائنس مضامین اردو میں دستیاب ہیں ۔ انہوں نے ایک جدید دارالترجمہ کا بھی مطالبہ کیا ۔ جہاں دنیا میں چھپنے والی کسی موضوع پر بھی کتاب کو اردو میں ترجمہ کیا جا سکے ۔ ان کے علاوہ پروفیسر محمد دین جوہر ، پروفیسر احمد ندیم فیض ، سید ثاقب ایڈو کیٹ اور دیگر نے خطاب کیا ۔ کانفرنس پر وطن دوستی اور اردو پروری کا رنگ غالب رہا ۔ کالم میں گنجائش کے باعث تفصیل ممکن نہیں مگر مزمل عباس صائم اور ان کی ٹیم تحسین و مبارک کے مستحق ہیں۔