مٹھی بھر آٹا اور گندم بھرے ’’بھڑولے‘‘
آزاد منڈی نے پانی ، تعلیم ، صحت ،ماحول اور ضرورت کی ہر چیز مہنگے ترین پلازوں اور شاپنگ سنٹروں میں سجا رکھی ہے، جسے غریب، مزدور ، بیروز گار اور کم تنخواہ والے طبقے صرف خریدنے کی خواہش کر سکتے ہیں، خرید نہیں سکتے۔ اگرچہ جمہوریت سب سے اعلیٰ اور مقبول ترین نظام حکومت ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری جمہوریت میں مکمل جمہوری اقدامات اور حجانات موجود نہیں۔ کوئی بھی پارٹی حکومت میں آ جائے، خواہ وہ کسی بھی نعرے کے مینڈیٹ کے ساتھ آئے، پالیسیاں بہر حال لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کے برعکس ان کے اپنے داخلی اور کار پوریٹ مفادات کے تحت ہی بنتی ہیں۔ اب تمام سیاسی جماعتوں نے مزدوروں، کسانوں اور کم تنخواہ والے طبقے کو آزاد منڈی کا جبر جھیلنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔مقتدر طاقتوں کا تازہ فرمان یہی ہے۔’’ جتنا زیادہ کسی کے پاس ہے اتنا زیادہ اسے اور ملے گا‘‘۔ ان حالات میں مختلف اداروں ،محکموں اور طبقوں نے اپنے اپنے اراکین کیلئے رہائش جیسی بنیادی ضرورت کیلئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ کچھ اچھے لوگ یہ کوشش اپنے طبقے کیلئے کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تمام تر کوششیں خالصتاً ان کی اپنی ذات کیلئے ہوتی ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ گوجرانوالہ میں ورکنگ جرنلسٹوں کی قیادت کی تمام کوششیں طبقے کے اجتماعی مفاد کیلئے ہیں۔ بری خبروں کے ہجوم میں یہ ایک اچھی خبر سننے میں آئی ہے کہ لاہور، راولپنڈی کی طرح گوجرانوالہ میں بھی میڈیا ٹائون منظوری کے قریب پہنچ چکا ہے۔ میڈیا ٹائون کیلئے 239کنال اور 5مرلے اراضی کی سمری پنجاب ریونیو بورڈ کو ارسال کر دی گئی۔ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ محمد عامر جان نے اعلان کیا ہے کہ میڈیا ٹائون کو مثالی بنائیں گے۔ سست روی کے شکار اس ملک میں یہ اعلان بڑا اہم ہے کہ میڈیا ٹائون رواں برس مکمل ہو جائیگا۔ آپ اس پر آئندہ برس ہونے والے عام ملکی انتخابات کی روشنی میں یقین بھی کر سکتے ہیں۔ وگرنہ سرکاری اعلانات میں سچائی کی کتنی رمق ہوتی ہے وہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں، صدر پریس کلب کا یہ اعلان بہت اہم ہے کہ تمام ورکر صحافیوں کو پلاٹ ملیں گے۔ یہ کالونی پام سٹی کے ساتھ بنائی جا رہی ہے۔ چارلس ڈکنز نے سب سے پہلے اپنے ناول ’’ اولیور ٹوسٹ‘‘ میں شہروں کے مضافات کا ذکر کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان مضافات میں جرائم پلتے ہیں، منشیات فروشی کے کاروبار کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے، اس کے باوجود پاکستان میں ان مضافات کی ایک افادیت بھی تھی کہ شہروں سے باہر ان میلی کچیلی گندی بستیوں میں غریب غرباء کے رہنے کا بندوبست ہو جایا کرتا تھا۔ ان مضافات میں رہائشی پلاٹوں کی قیمت برائے نام ہوا کرتی تھی۔ اب ٹائون ڈویلپروں نے مضافات ختم کر کے گکھڑ منڈی سے لیکر کامونکی کے آغاز تک ایک ہی شہر گوجرانوالہ بنا دیا ہے۔ اب مضافات تو ایک طرف رہے، گوجرانوالہ میں گائوں کے گائوں ہی شامل ہو گئے ہیں۔ تھیڑی سانسی کسی زمانہ میں گوجرانوالہ کا دیہاتی ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ یہ زمانہ معلوم سے سدا بہار وزیر چوہدری محمد اقبال کا گائوں ہے ۔ خدا جانے اس مرتبہ وہ زیر کیوں نہیں بن سکے۔ ہمیں پنجاب کابینہ ہی ناکمل سی لگ رہی ہے۔ چوہدری محمد اقبال کے دل میں شہر میں رہائش اختیار کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ سب سے پہلے انہوں نے سیٹلائٹ ٹائون گوجرانوالہ میں ’’ مرحوم ‘‘ ریکس سینما کے ساتھ ایک گھر کرائے پر لیا۔ پھر اس کے قریب ہی ایک بڑا سا رہائشی پلاٹ خرید کر گھر بنا لیا۔ اب مدت ہوئی وہ اپنا شہری گھر بیچ کر دوبارہ اپنے گائوں پہنچ چکے ہیں۔ ان کا گائوں اب شہری حدود میں شامل ہے۔ نیا میڈیا ٹائون گوجرانوالہ ان کے گائوں سے بھی دو اڑھائی میل پر ہے۔ ہمارے ٹائون ڈویلپروں نے سستے رہائشی پلاٹوں کا کوئی تصور نہیں رہنے دیا۔ کسی رہائشی کا لونی میں پندرہ بیس لاکھ روپوں سے کم قیمت میں پانچ مرلے کا پلاٹ میسر نہیں۔ حالانکہ یہ سیدھا سیدھا صرف زرعی اراضی کو کمرشل اور ریزیڈنشل بنانے کا معاملہ ہے۔ ان دنوں پاکستان میں سب سے نفع بخش کاروبار صرف ٹائون ڈویلپمنگ ہے۔ نئی بستیوں میں کھیل کے میدان ٹائون ڈویلپروں کے غیر معمولی طمع اور لالچ نگل چکے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے ، مرتے بے بسی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میڈیا ٹائون میں بچوں کیلئے کھیل کا میدان ضرور بنایا جائے۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’ تاریخ مدینہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب کی اہمیت اس طرح کچھ اور بڑھ جاتی ہے کہ اس کا مسودہ 998ہجری کو مدینہ شریف میں بیٹھ کر لکھا گیا۔ پھر اس مسودے کو1001ہجری میں دہلی میں بیٹھ کر صاف کیا گیا۔ میں نے اس کتاب کا ذکر محض اس ضمن میں کیا ہے کہ 298صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کہیں رہائشی پلاٹ کا لفظ نہیں آتا۔ در اصل اس زمانے میں رہائشی پلاٹوں کا حصول کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان دنوں مدینہ کی آبادی کے ساتھ خالی جگہ میں کسی کو گھر، جھونپڑا یا کمرہ بنانے کی کوئی ممانعت ہو گی۔ حضورپاکؐ کے حجرہ مبارک کا سائزہ مختلف روایتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً 10x30ہے۔ اس طرح یہ رقبہ ایک مرلہ سے تھوڑا ہی زیادہ بنتا ہے۔ پھر اس زمانہ میں زندگی اتنی آسان اور معاشرت اتنی سادہ تھی کہ مختصر سی آبادی والے شہر مدینہ پاک کے امیر کبیر تاجر حضرت عبدالرحمن بن عوف سے ان کے کپڑوں پر خوشبو کا داغ دیکھ کر حضورؐ پوچھتے ہیں آپ نے شادی کی ہے؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف اس پر اثبات میں جواب دیتے ہیں۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق دولہے نکاح کے وقت جس خوشبو کا استعمال کرتے، اس کا داغ اکثر کپڑوں پر رہ جایا کرتا تھا۔ یہی دیکھ کر حضورؐ نے پوچھا تھا۔ اس روایت سے ہماری شادیوں میں اصراف کا اندازہ لگائیں۔ ہندو معاشرت نے ہماری زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔ ان دنوں رہائشی پلاٹوں کا ایک جنس کے طور پر وجود ہی نہیں تھا۔ اس لئے کسی فقہ میں ان کی ذخیرہ اندوزی کا کوئی امتناع نہیں اور ان پر زکوۃ کا کوئی تصور بھی موجود نہیں۔ اب ہمارے علمائے کرام اجتہاد کا دروازہ بند کر کے اس پر موٹا قفل لگائے اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ 239کنال 5مرلے سرکاری اراضی پر ، سرکاری اہتمام سے ، گوجرانوالہ میڈیا ٹائون انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائیگا۔ یہ پلاٹ برائے نام قیمت پر دیئے جائیں گے۔ یہ برائے نام قیمت بھی غالباً قسطوں میں واجب الادا ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہواگر میڈیا ٹائون گوجرانوالہ میں کوئی پلاٹ پانچ مرلے سے بڑا نہ بنایا جائے۔ پھر انہیں لے بھی وہی سکے جس کے پاس پہلے کوئی رہائش کا بندوبست نہ ہو۔ درخواست گذاروں سے پاکستان کے کسی شہر میں کوئی گھر یا رہائشی پلاٹ نہ ہونے کا بیان حلفی ضرور لیا جائے۔ اسطرح گوجرانوالہ کو میڈیا سے وابستہ تمام لوگوں کی بے گھری دور ہو سکتی ہے۔ ورنہ یہ میٹھی بھر آٹا انہی گھروں میں دروازہ کھٹکھٹا کر دینے والی بات ہے جہاں پہلے ہی گندم کے ’’بھڑولے‘‘ بھرے پڑے ہیں۔ نوٹ: ’’بھڑولہ ایک ٹین یا مٹی کا بنا ہوا بڑا کھلا سا برتن ہوتا ہے، جس میں ایک گھر کی سال بھر کی ضرورت کیلئے گندم اسٹاک کی جاتی ہے۔ خوشحال گھروں میں ’’ بھڑولے ‘‘ نئی فصل آنے پر بھی ابھی خالی نہیں ہوئے ہوتے۔