’’ وت وی اللہ‘‘
کیس کتنا عرصہ چلا ۔ دن۔ مہینے سب کو ازبر ہیں ۔ ("متوقع کمیشن "قیام کا پہلے کالم میں ذکر ہو چکا ہے ) فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد ذہنی خلجان بڑھانے میں حسبِ معمول"میڈیائی دانشور" سر گرم ہیں ۔ ایک طرف "ہائی الرٹ "۔ دوسری طرف پانامہ فیصلہ ۔ اول الذکر نے شاپنگ مراکز ۔ سڑکیں ویران کر دیں ۔ موخر الذکر نے دل میں مزید خدشات اُٹھا دئیے ہیں ۔
بلاشبہ مٹی کے خمیر سے وجود پانے والے نے ایک دن "اللہ کریم ۔ غفور الرحیم "کو جان دینی اور اپنی قبر میں دفن ہونا ہے ۔ چاہے کوئی پورے" براعظم" کا با جبروت بادشاہ تھا۔ یا جھونپڑی میں رہنے والا گدا گر ۔ وجود میں آنے اور فانی دنیا سے جانے کا مقدر ایک جیسا ہے اِس ضمن میں واقعتناً سب" ایک صفحہ "پر ہیں ۔ کوئی" ایک دن جیا یا 100سال" ۔رخصتی یقینی ہے ۔ ہاں ایمان کی سلامتی ۔ کفن ۔ دفن ضرور نصیب میں ہو۔" آمین" ۔ معاشی تنگی ۔ انرجی بحران ۔ کرپشن نااہلی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ صرف ہم نہیں ۔ عالمی خطہ کے سبھی مسلمان غم ۔ گردش کا شکار ہیں ۔ سیکولر انڈیا میں داڑھی رکھنے پر "مسلمان پولیس اہلکار" کو کام سے روک دیا گیا ۔" مسلمانی نام" تو دہائیوں سے زیر عتاب تھے اب کچھ عرصہ سے وضع قطع زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے ۔ زندگی کے دشوار ترین مرحلے سے گزرتے متواتر "سلاٹر ہاوٗس" میں ذبح ہوتے اُن انسانوں پر نئی پابندیاں ۔ جبر کیا تازیانے برسا سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے ایسی حرکات دنیا کے کثیر حصہ میں پہلے سے دہکتے الاوٗ میں دو چند اضافہ کا باعث بنے گا ۔ ہم تو متاثرہ فریق ہیں ۔ شکوہ کناں ہوئے تو بھی" منصفی "ملنے والی نہیں ۔ خود اُن کی دنیا کے باسی ۔ ادارے "پاور بروکرز" کی نا انصافیوں ۔ سفاکیت پر چشم کشاں رپورٹس دھڑا دھڑ جاری کر رہے ہیں ۔
"ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے صدر ٹرمپ کو تفریقی اور منقسم سیاست کی مثال کہتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں سیاستدان" نفرت انگیز دنیا "تشکیل دے رہے ہیں ۔ لیڈر لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کی بجائے انسانی اقدار کے منافی ایجنڈہ سنبھالے بیٹھے ہیں ۔ یہی حال رہا تو دنیا میں لوگوں پر نسل ۔صنف ۔قومیت اور مذہب کی وجہ سے حملوں میں اضافہ ہوگا ۔" جرمن چانسلر" کا موقف ہے کہ اسلام دہشت گردی کا منبع و ماخذ نہیں ۔ گاجر مولی کی طرح کٹتے ۔ بمباری سے قیمہ بنتے ماحول میں جبکہ ہر طرف خوف۔ عدم تحفظ کی فضا چھائی ہو ۔ یورپ کے دل "جرمنی "سے اُٹھی "نسوانی آواز "میونخ کانفرنس میں موجود درجن بھر مرد لیڈروں پر بھاری تھی ۔
مسلمان نے کِسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیا ۔ مسلم تاریخ شاہد ہے بلکہ "غداروں" کے تذکروں سے بھری پڑی ہے ۔ تمام تر کوتاہیوں ۔ فروگزاشتوں کے باوجود" کعبہ کے رب "۔" رب ِرحمن" کی رحمت ۔ فضل کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ۔ "اربوں مسلمانوں "پر حاکم (اگرچہ سینکڑوں ) حکمرانوں کی بد اعمالیوں ۔ سنگین ۔ ناقص فیصلوں کو "غضبِ الہٰی" کی تپش نے اگر محفوظ رکھا تو اُنھی کی بستیوں میں آباد "اللہ تعالی" کے مقرب بندوں کی موجودگی نے۔(اگرچہ چند نفوس)
" یورپ" کے صرف سیاست ۔ شوبز نہیں ۔ روحانی پیشواوٗں کے علاوہ "پوپ فرانسس "کا تازہ فرمودہ بھی "اللہ کریم "کی طرف سے اُمید بھری روشنی ہے کہ" اسلامی دہشت گردی "کا کوئی وجود نہیں ۔ "اللہ تعالی" کو رحم ۔ ہمدردی پسند ہے ۔ کوئی شک نہیں ۔ دنیا کی بنیاد رکھنے سے پہلے "لوحِ محفوظ "پر لکھ دیا ۔ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہو گی ۔ سب کا رازق چاہے مسلمان یاعیسائی ۔ اتنا رحیم کہ" دہریہ "کو بھی رزق پہنچا رہاہے ۔ "بلند تر رب جو شہنشاہ حقیقی" ہے ۔ اُس کی واحد نیت ۔ طاقت کے آگے ساری بادشاہتیں ہیچ ۔ کمتر ہیں ۔ جب بات۔ تعریف ہو" ربِ کائنات "کی تو سب قوانین ۔نظام ساقط ہو جاتے ہیں ۔ اپنی سرزمین کو دوسروں کے لیے بند کرنے والوں کے اپنے شہری پرچم اُٹھائے نعرے لگا رہے تھے "میں بھی مسلمان ہوں" ۔ اپنے غصے پر رحمت کو غالب قرار دینے والے" ربِ ذی شان "کے دنیا پر نیابت کا فرض نبھانے والے عوام بابت فیصلوں میں کتنے رحمدل ہیں ؟ سونپی گئی امانتوں کی کسقدر ادائیگی ۔ حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔ کتنے فیصد دولت ۔ اقتدار ملنے پر شکر گزار ہیں ۔ اِن سب سے زیادہ قابل تحسین ہر" اذان" کی آواز کے ساتھ کِھلنے والا "رب حقیقی "کی نعمتوں پر اظہار تشکر کرتا پھول ہے۔
جس دیس میں گائے کا گوشت نہیں کھا سکتے اُس کے ایک صوبہ تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے 500"شراب خانے" مکمل بند کر دئیے ۔ اپنی "ماں" کے انتخابی وعدے پر۔ جبکہ ہم جاہ وحشم والے اقتدار کے باوجود عوام کو انصاف ۔ روٹی دینے سے معذور ہیں ۔ خلافت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہمارا سب سے بڑا قصور ۔جو ظلم و جبر ختم نہیں ہونے دے رہا ۔ ہر لحظہ بڑھتا تشددبھی مایوس نہیں ہونے دیتا ۔ ایمان کمزور سہی مگر ختم نہیں ہوا ۔ باطل ہمیں سرنگوں کرنے میں ناکام ہے ۔ اعمال بد سہی ۔ دعائیں قبول نہیں ہو رہیں ۔ مشکلات ہیں کہ ایک کے بعد دوسری ، اِس کے باوجود ۔ عالمی تناظر میں پُوری" اُمہ" ۔ مُلکی منظر میں۔ پوری قوم یقین رکھتی ہے کہ مقدر بدلے گا ۔ یہ یقین ڈوبنے نہیں دیتا ۔ دنیا لاکھ ظلم ڈھادے ۔حکمران حق مار دیں۔ خوشیاں جیسے زمین سے روٹھ گئی ہیں۔زندگی کی سانسوں کو بوجھل کر تی غم کی دبیزچادر تنی ہے ۔ پھر بھی یہ قوم نا امید نہیں ہوگی کیونکہ۔
"وت وی اللہ"
"یعنی پھر بھی تو ہی میرا رب ہے" ۔