ایک شاندار ولیمہ اور چند لوٹے صحافی
ہم ایک شاندار شادی میں شہر سے بہت دور برکی روڈ سے بھی دور قیصر امین بٹ کے بیٹے کے ولیمے میں گئے۔ برادرم ناصر اقبال خان مجھے زبردستی لے گیا۔ آصف صاحب گاڑی چلا رہے تھے مجھے خیال آیا کہ وہ گاڑی چلاتے چلاتے تھک گئے ہوں گے۔
ہم وہاں پہنچے تو روشنیوں کا جنگل آباد تھا۔ کئی کلومیٹر پہلے روشنیاں شروع ہو گئی تھیں۔ قیصر امین بٹ بہت شاندار اور مہمان نواز آدمی ہیں۔ بہت امیر ہیں بلکہ بہت سے بھی زیادہ امیر ہیں مگر لگتے غریب ہیں۔ یہ میں نے پازیٹو معنوں میں کہا ہے۔ میں خود بھی بہت غریب آدمی ہوں۔ کچھ لوگ غریب ہوتے ہیں مگر مزاج اور طبیعت کے غریب نہیں ہوتے۔ امیر بھی بُرے نہیں ہوتے ہیں وہ امیر ہوں اور کچھ باضمیر بھی ہوں۔ دردمند ہوں‘ ہمدرد بھی ہوں۔
جتنا ہجوم یہاں ولیمے پہ تھا تو لگتا ہے قیصر امین بٹ نے غریبوں کو بھی بلا رکھا تھا۔ یہاں امیر بھی بہت تھے۔ ایسے موقعوں پر غریب عورتیں امیر کبیر عورتیں لگتی ہیں۔
وہاں سب سے پہلے قیصر امین بٹ ملے۔ پھر میری نظر یوسف رضا گیلانی پر پڑی۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس دور آباد علاقے میں تھوڑے سے عرصے میں چار پانچ شادیاں اٹنڈ کر چکے ہیں۔ ان کے امیرانہ تاثر سے لگتا ہے کہ وہ یہاں سلامی دیتے نہیں ہیں بلکہ سلامی لیتے ہیں۔ یہاں خواجہ سعد رفیق بھی آئے۔ کہنے میں یہ علاقہ خواجہ سعد رفیق کا ہے۔ خواجہ صاحب بڑی محبت سے ملے۔ جیسے میزبان وہی ہوں۔ میرے پسندیدہ وزیر خوجہ سلمان رفیق بھی تھے۔ وہ عوامی آدمی ہیں مجھے وزیر شذیر اچھے نہیں لگتے مگر سلمان رفیق بہت اچھے لگتے ہیں۔ رانا مشہود بھی تھے۔ میں نے انہیں ایک بار برادرم شاہد رشید کے پاس نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں کمرے کی آخری کرسی پر بہت مؤدب انداز میں بیٹھے دیکھا ہے۔ مجھے اچھا لگا۔ ان کا مزاج وزیرانہ نہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے آپ کو یاد دلانے کے لئے وزیر شذیر بن جاتے ہیں۔ وہ وزیر تعلیم ہیں تو پنجاب یونیورسٹی کو بھی موجودہ اکھاڑ پچھاڑ سے بچائیں۔
میرے دوست وزیر داخلہ چودھری نثار نے نجانے کس سے پوچھا ہے کہ سیہون شریف کے لئے کروڑوں کے نذرانے کہاں جاتے ہیں۔ یہ بھی سوال ہے کہ وہ آتے کہاں سے ہیں؟ سنا ہے کہ چیف سیکرٹری سندھ سے یہ سوال کیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری کو لگاتا کون ہے۔ کسی صوبے کا چیف سیکرٹری کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔ مزار پر کوئی سکیورٹی نہ تھی، نہ واک تھرو گیٹس نہ بجلی۔ اس کے ساتھ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ دہشت گردی کم ہوئی ہے۔ کچھ واقعات ہماری کوتاہیوں سے ہوتے ہیں۔ ہماری کوتاہیوں سے ان کی کیا مراد ہے۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ کون کون کوتاہی کر رہا ہے۔ تو پھر ان کے خلاف کارروائی کریں۔ کم از کم آرمی چیف نے بھی کوئی بیان جاری کیا ہے تو چیف سیکرٹری کو تو نشان عبرت بنائیں۔
ہماری یہی ذمہ داری ہے اب فوجی افسران بھی سیاستدان بن گئے ہیں اور بیان جاری کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں کہیں کوئی خاص دہشت گردی نہیں ہو رہی ہے۔ صرف پاکستان دہشت گردوں کے لئے جنت بنا ہوا ہے جنہوں نے بے خبر اور بے گناہ پاکستانیوں کے لئے زندگی دوزخ بنا دی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد شاہ کو سنئے۔ ’’لعل شہباز قلندر کے مزار کے جن کیمروں کو ناکارہ کہا جا رہا ہے۔ ان سے کئی شواہد ملے ہیں۔ یہ ’’بڑی کامیابی‘‘ مراد علی شاہ کی ہے۔ شواہد تو ملے مگر اس کے بعد کیا ہو گا۔ جو شہادتیں ہوئی ہیں۔ ان کا کیا بنے گا۔ کیا کسی آدمی کی قیمت چند لاکھ روپے ہے۔ میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ کوئی آدمی لاکھوں روپے کے عوض اپنی انگلی زخمی کر کے دکھائے۔
ضلع اٹک سے ایک رسالہ شائع ہوتا ہے۔ ’’فروغِ نعت‘‘ اس کے مدیر سید شاکر علی قادری چشتی نظامی ہیں۔ اس رسالے میں سردار ظہیر احمد خان ایڈووکیٹ کی تقریباً 20 سے زیادہ بہت سوز و ساز والی نعتیں شائع ہوئی ہیں۔ ان کی یہ نعتیں ایک ادبی مرتبہ بھی رکھتی ہیں۔ انہوں نے عشق رسولؐ کے جذبے میں ڈوب کر یہ نعتیں لکھی ہیں۔ ایک شاعر کی اتنی زیادہ نعتیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو گیا ہے۔ ان کی نعتوں کی اصلاح نامور شاعر احسان دانش نے کی تھی۔ حفیظ تائب کا نام نعت کے حوالے سے زندہ رہے گا۔ انہیں مجدد نعت کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کے بھائی مجید منہاس فروغ نعت میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ ظہیر صاحب کے چند نعتیہ اشعار
خود نگر بھی ہوں اور غریب بھی ہوں
یوں ترے در سے دور ہوں آقاؐ
………………
میں بھی احسان کا شاگرد ہوا
مدحِ آقاؐ کا سلیقہ آیا
………………
دل کا دروازہ مدینے کی ہوا سے کھل گیا
ہجر میں آنسو سے اعمال نامہ دھل گیا
نامور صحافی احسن ضیا نے ساتھیوں سے مل کر ایک این جی او بنائی ہے۔ اس کا نام ہی ’’ورکرز گروپ‘‘ ہے۔ یہ اصل میں چند دلیر اور دیانت دار صحافیوں کا گروپ ہے۔ وہ چاہتے تو یہ ہیں کہ پورے معاشرے میں ایک بہتر زندگی کے لئے کوشش کریں۔ ان کے سامنے کچھ صحافیوں کی کرپشن بھی ہے۔ آج کل لفافہ جرنلزم کی بات عام ہونے لگی ہیں۔
کچھ صحافیوں کی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں وہ اخبارات بدلتے رہتے ہیں جس طرح کرپٹ اور ابن الوقت سیاستدان پارٹیاں بدلتے ہیں اسے لوٹا ازم کہتے ہیں۔ سیاست صحافت لازم و ملزوم ہیں تو صحافی لوٹے بھی بنتے ہیں۔
زیادہ صحافی برادری بہت برے حالات میں گزر بسر کرنے کی کوشش میں ہے۔ پریس کلب کی قیادت کو بھی اس طرف توجہ دینا چاہئے۔