• news

غذائی قلت، 7 ارب 60 کروڑ ڈالر سالانہ کا مالی نقصان: رپورٹ

اسلام آباد (صباح نیوز) پاکستان میں غذائی قلت کے نقصانات سے متعلق رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ہر سال غذائی قلت کے باعث 7 ارب 60 کروڑ ڈالر کا مالی نقصان ہوتا ہے جبکہ سالانہ ایک لاکھ 77 ہزار بچے غذائی قلت کی وجہ سے 5سال کی عمر سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات، عالمی ادارئہ خوراک اور سکیلنگ اپ نیوٹریشن (سن) نے مل کر تیار کی ہے۔ رپورٹ کے اجراء کے موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی و اصلاحات احسن اقبال، وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی سکندر حیات خان بوسن، عالمی ادارئہ خوراک (ڈبلیو ایف او) کے ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر سٹیفن گلنگ بھی موجود تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں غذائی قلت کے باعث صحت کم آمدنی سمیت دوسرے شعبوں میں ہونے والے اخراجات اور نقصان کو جمع کیا جائے تو یہ سالانہ 7 ارب 60 کروڑ ڈالر بنتا ہے جو پاکستان کی قومی آمدن کا 3 فیصد بنتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 77 ہزار 5 سال کی عمر سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یا تو یہ بچے خود یا پھر ان کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کو مستقبل کی ورک فورس کے شعبے میں سالانہ 2 ارب 24 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسی طرح سے ہر سال 9 کروڑ اسہال اور سانس کی بیماریوں سے متاثرہ بچوں کے کیس سامنے آتے ہیں جس کی وجہ ماں کے دودھ کی کمی اور زنک کی کمی ہے جس سے صحت کے شعبے میں پاکستان کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دو تہائی پاکستانی بچے بڑھوتری کی شرح میں کمی، خون کی کمی اور آئیوڈین کی کمی کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی کمزوریوں کا شکار ہیں جس کی وجہ سے سکول میں ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جس سے پاکستان کو سالانہ 3 ارب 70 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ایک کروڑ کام کرنے والے بالغ افراد خون کی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ جسمانی کمزوری اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صنعتوں، زراعت اور ملازمتوں کے دوران ان کی کارکردگی متاثر ہوتی اور ملک کو سالانہ 65 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ حکومت پاکستان ملک میں غذائی قلت کے خاتمے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اچھی صحت اور انسانی بہتری کے لئے غذائی قلت کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی سکندر حیات بوسن نے کہا کہ حکومت غذائی قلت پر قابو پانے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن فوڈ سکیورٹی اور نیوٹریشن کے اشاریوں کو بہتر بنانے کے لئے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کیلئے یہ کام نہیں کر سکتی۔ عالمی ادارہ خوراک کے ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر سٹیفن گلنگ نے کہا کہ غذائی قلت نہ صرف کمزور ماں اور بچے پر بوجھ ہے بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی بوجھ ہے۔ ایک صحت مند بچہ صحت مند ماں ہی پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان سے غذائی قلت کے خاتمے کے لئے نچلی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن