میانوالی کی باتیں اور ایک کارواں
میانوالی کے معروف شاعر برادرم منصور آفاق کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ صرف سیاستدان ہی ہمارے کالموں کا موضوع بن کے رہ گئے ہیں۔ مگر سیاست کے ایک مرحوم و ممتاز نوجوان نجیب اللہ خان نیازی کے لیے بات کرنا بھی ضروری ہے۔ میں یہ دونوں باتیں کروں گا۔
دوستدار اور دبنگ سیاستدان ظفر علی شاہ کا ذکر میں نے پچھلے کسی کالم میں کیا تھا۔ ان کا فون آ گیا۔ ایسی محبت اور کشادگی ہمارے سیاستدانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ میں نے شاہ صاحب کے لیے اپنی دوستی کے اظہار میں کچھ لکھا تھا۔ کچھ تنقیدی بات بھی شاید لکھی گئی مگر میں ان کے لیے دوستانہ آسودگی کو نہیں بھولتا۔ وہ مکالمہ کرنے میں دلیر آدمی ہیں۔
نواز شریف کے لیے بھی بات ہو جاتی ہے مگر ان کے کچھ دوست بہت سنجیدہ ہیں۔ کبھی کبھی غیرسنجیدگی بہت بامعنی ہوتی ہے۔ برادرم رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے پر ہمدردی کی زبردست لہر آئے گی تو پھر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ آئے۔ یہ فیصلہ نواز شریف کی فیملی کے لیے ہو گا۔ میں حسن نواز اور حسین نواز سے نہیں ملا۔ ملا تو میں مریم نواز سے بھی نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ مریم بی بی نواز شریف کی جانشین اور سیاسی وارث ہے۔
ہم تو کہتے ہیں کہ فیصلہ خلاف آئے تو نواز شریف کو استعفی دے دینا چاہیے۔ استعفیٰ کے بعد کسی حد تک شاید ہمدردی کی لہر بنا لی جائے۔ اس کا امکان بھی ہے۔ رانا صاحب کہہ رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے مگر یہ بھی ایک فکر بلکہ فکرمندی ہے کہ کرپشن کے کیس میں خلاف فیصلے سے نواز شریف کا کیا بنے گا۔ اور برادرم رانا ثنااللہ کا کیا بنے گا؟ جنرل مشرف کے دور میں جب وہ اپوزیشن میں تھے تو ہم ان کے ساتھ تھے۔ پھر بھی ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
منصور آفاق نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’دیوان منصور آفاق‘‘ رکھا ہے۔ اس کی یہ تخلیقی دیوانگی مجھے دیوانہ بنا گئی۔ اس نے مجھے اپنا دیوان دیا تو لکھا ’’استاد محترم ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے نام جن سے میں نے لفظ لکھنا سیکھا۔‘‘ ردیف الف سے لے کے ردیف چھوٹی ی اور بڑی ے تک تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل یہ شاعری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے ناشر محمد ندیم بھابھہ منصور آفاق کے بارے میں لکھتے ہیں وہ خود بھی ایک اچھے شاعر ہیں۔
’’مجلس اوراق کی طرف سے ’’دیوان منصور‘‘ کا تحفہ حاضر ہے۔ شاید ہم بہ لحاظ ردیف تقریباً ایک سو سال کے بعد کوئی شعری مجموعہ اردو ادب کے سپرد کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نئی غزل کو قدیم روایت کے طشت میں رکھ کر کیوں پیش کیا گیا۔ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ منصور آفاق نے غزل کے دامن کو جس حد تک جدید تر کر دیا ہے کیا وہ اس کی متحمل ہو سکتی ہے؟‘‘
اب ایک دوسری کتاب ’’ایک شخصیت ایک کارواں‘‘ کے نام سے ممبر صوبائی اسمبلی مرحوم نجیب اللہ خان کے لیے لکھی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں مصنف شاہ نواز ارشد نے نجیب کے لیے شاعری بھی کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں۔
اے نجیب اللہ تیرے عزم و ہمت کو سلام
تیری عظمت اور تیری آدمیت کو سلام
تو نے بھکر کے سیاست میں ہے لایا انقلاب
منفرد بے باک تھی تیری قیادت کو سلام
اک نیا تھا ولولہ تجھ میں ترے احباب میں
دل کی گہرائیوں سے ہے تیری سیاست کو سلام
نجیب اللہ خان بہت بہادر دردمند بہت قابل نوجوان تھا۔ اس نے میانوالی سے بھکر آ کے سیاست اور قیادت کا مزاج تبدیل کر دیا تھا۔ وہ بے پناہ مقرر تھا۔ اس نے بھکر کی وڈیرہ شاہی کو شکست فاش دی۔ کوئی ظلم کے خلاف بول نہ سکتا تھا۔ اس نے دلوں کے سارے دروازے کھول دیے اور ایک نیا منظر نامہ لوگوں کی زندگی پر چھا گیا۔ وہ کئی دفعہ ممبر اسمبلی بنا۔ اس نے لوگوں کو نیا حوصلہ دیا۔ عام لوگوں نے اس کے ساتھ عشق کیا۔ وہ بہت خوبصورت اور مستحکم جذبوں کا نوجوان تھا۔ وہ جوانی میں ان دیکھی دنیائوں کی طرف چلا گیا۔ اس کا بڑا بھائی میانوالی کی روایتوں کا پاسبان سعیداللہ خان نیازی بڑی مشکلوں سے اس کا جنازہ میانوالی لے کے آیا۔
اس کے لیے تین جنازے پڑھے گئے۔ بھکر دریا خان اور میانوالی میں لوگوں کا ہجوم سنبھالا نہیں جاتا تھا۔ یہ اس محبوبیت اور عوامی مقبولیت کا اعجاز تھا کہ اس کا بڑا بھائی بہت زبردست شخصیت کا مالک انعام اللہ خان نیازی اس کی نشست پر ممبر اسمبلی منتخب ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ ضلع بھکر ابھی تک ضلع میانوالی کی تحصیل ہے۔ انعام نے بھی بھکر میں بڑے ترقیاتی کام کیے ہیں۔ مجھے بھکر سے علائوالدین خلجی نے بتایا کہ جو کام کبھی نہ ہو سکے وہ بھی ہوئے۔ خلجی صاحب بھکر میں صحافت کے میر کارواں ہیں مگر شاہنواز ارشد نے نجیب اللہ خان نیازی کے لیے کارواں کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سے بڑا میر کارواں کیا ہوتا ہے۔ کارواں والے جسے اپنا ساتھی سمجھتے ہوں۔ رفاقت کا احساس محبت کے جذبے سے بڑھ کر ہے۔
کہا ہے عارف کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق
نجیب اللہ خان کے لیے کتاب میں اس کے کالم نگار بھائی حفیظ اللہ خان نیازی نے جو تحریر لکھی ہے اس کا نام ہے ’’نجیب الطرفین خان نیازی کے لیے ایک تحریر۔‘‘
آخر میں منصور آفاق کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارہ ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
آ گرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا
زندگی اک جوا خانہ ہے جس کے فٹ پاتھ پر اپنا دل
اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا