فوجی عدالتوں کا قضیہ
ملک کے دو لخت ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی جمہوری منتخب حکومت کی رسم بسم اللہ سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مسٹر بھٹو کے ہاتھوں ادا ہوئی۔
لاہور میں منتخب نمائندوںکے ہوسٹل پیپلزپائوس کے کمرہ نمبر ایک میں فوجی عدالت کے سامنے پہلا مقدمہ اردو ڈائجسٹ اور زندگی کے ایڈیٹروں ڈاکٹرا عجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی کے خلاف شروع ہوا، پہلی ہی پیشی پر ایک کپتان نے چارج شیٹ پڑھ کر سنائی اور سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی، پندرہ منٹ بعد فوجی عدالت پھر براجمان ہوئی، تینوں ایڈیٹروں کو ایک بار پھر ہتھکڑیوں میں پیش کیا گیا، کسی وکیل صفائی کو پیش ہونے کی اجازت نہ ملی،کپتان نے تینوں ملزموں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور میز کی دراز کھول کر ایک ٹائپ شدہ فیصلہ نکال کر پڑھ دیا، کروڑوں روپے جرمانہ اور عمر قید کی سزائیں۔
ایک مقدنے کا فیصلہ سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مسٹر بھٹو نے خود کیا، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلیری کو فکس اپ کرتے ہوئے گھر بھجوا دیا گیا۔
اس پیپلز پارٹی کو ماشا اللہ آج فوجی عدالتوں سے اس قدر چڑ ہے کہ وہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب! کا ورد کرتے ہوئے ان کے قیام کی راہ میں حائل ہے، اس سے قبل فوجی عدالتوں کے قانون کی منظوری دی گئی تھی تو چیئرمین سینیٹ کے منصب پر فائز ہونے والے میاں رضا ربانی نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے دستخط کئے تھے۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر بھٹو کے خلاف مقدمہ کسی فوجی عدالت میں پیش ہوتا تو وہ فیصلہ نہ ہوتا جو سول عدالتوں نے کیا اور بھٹو پھانسی چڑھنے سے بچ جاتے، اسی یقین سے میں کہتا ہوں کہ محترمہ بے نظیر پر دہشت گردانہ حملے کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں جاتا تو ان کے قاتلوں کو پھانسی پر چڑھانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ ہوتی۔
میں ا س کالم کو اعداد و شمار سے بوجھل نہیں بنانا چاہتا کہ جنرل راحیل کے دور کی فوجی عدالتوںمیں کتنے مقدمے پیش ہوئے، ان میں کتنے فیصلے ہوئے اور کتنے مجرموں کو پھانسی دی گئی، بس ایک اشارہ کر دیتا ہوں کہ پھانسی پانے والوں کو دو تین انگلیوں کی پوروں پر گنا جاسکتا ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے، فوجی عدالتوںکا وجود عدم وجود برابر تھا۔ ان کی ایک نہ چلنے دی گئی، یہ یاد رکھئے کہ سارے مقدمے ان دہشت گردوں کے خلاف تھے جنہوںنے براہ راست فوج پر حملے کئے تھے۔ یہ مجرم جیلوں میں مزے کر رہے ہیں اور کبھی جیلیں ٹوٹیں تو رفوچکر ہو جائیں گے۔ جیلیں ٹوٹنے کے واقعات انہونی بات نہیں۔
کیا پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ دہشت گرد وں کے مقدمے خود دہشت گردوں کے روبرو پیش کئے جائیں، خاطر جمع رکھئے، وہاں تیزرفتار انصاف ہوتا ہے، دہشتگرد ان مقدموں کے فیصلے قلم سے نہیں، ٹریگر سے رقم کرتے ہیں،گردنیںکاٹ دیتے ہیں، ان کو فٹبال کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا گولیوں کی تڑ تڑ سے آن کی آن میں لاشوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اس صوبے کا دارالحکومت کراچی برسوں سے نااہل حکومت کی پیداکردہ بدامنی کی سزا بھگت رہا تھا۔ فوج نے یہاں آپریشن کی ضرورت محسوس کی ا ور رینجرز کو ڈیپلائے کرنا چاہا۔ سو سو نخروں کے بعد رینجرز کو کاروائی کی اجازت ملی۔ مگر اب کراچی وہ پہلے والا کراچی نہیں جہاں لوگ گھر سے باہر قدم رکھنے سے خوفزدہ تھے۔ پھر بھی پیپلز پارٹی کو فوج اور رینجرز سے کوئی خاص عداوت ہے کہ اب فوجی عدالتوں کے بل کی نئے سرے سے منظوری کا مرحلہ آیا ہے تو پھر وہی نخرے۔ میں پھر یاد دلا دوں کہ ا س پیپلز پارٹی کو پہلی بار اقتدار ملا تھا تو سویلین مارشل لا کی وردی بھی بخوشی قبول کر گئی تھی اور فوجی عدالتیں بھی بٹھا دی تھیں مگر اب جب سارا ملک دہشتگردوں سے لہو لہان ہے تو یہی پارٹی دہشت گردوں کے مقدموں کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام میں اڑی کر رہی ہے۔ کبھی پارلیمنٹ سے غیرحاضری، کبھی اے پی سی کا ڈرامہ رچا کر تاخیری حربے۔ لگتا ہے، دوودھ دیں گے تو مینگنیاں ڈال کر۔
عجیب بات ہے کہ حکمران مسلم لیگ ن دلائل پر دلائل دے رہی ہے کہ فوجی عدالتیں کس قدر ضروری ہیں، جمہوری ملکوں کے آئین سے حوالے دیئے جا رہے ہیں کہ وہاں بھی مخصوص حالات میں فوجی عدالتیں ہی بسرعت تمام فیصلے کرتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ گوانتا نامو بے کے قیدیوں کے فیصلے کس طرح فوجی جرنیل کر رہے تھے، ان بے چاروں کو امریکی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت بھی نہ تھی۔
مجھے معلوم نہیں کہ جو فیصلے فوجی عدالتیں کر سکتی ہیں، وہ ہماری سول عدالتیں کیوں نہیں کر سکتیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی کر سکتی ہیں مگر جس ملک میں یہ تہیہ کر لیا جائے کہ انصاف ہونا ہی نہیں، وہاں فوجی عدالتیں بھی قائم کر کے ہم نے دیکھ لیا کہ کس طرح ان کے فیصلوں پر عمل نہیں کیا گیا، یہی حال سول عدالتوں کے فیصلوں کا ہوتا ہے، ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا، سائل خوار ہو کر رہ جاتا ہے، مجرم دیگیں چڑھاتے ہیں، شادیانے بجاتے ہیں اور مزید شیر ہو جاتے ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ کیا فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے فوج کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے اور اگر کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے، فوج کو آخر کس طرح امید پیدا ہو گئی کہ ان کے فیصلوں پر عمل بھی ہو سکے گا، اب جبکہ وہ دیکھ بھی چکی ہے کہ عمل نہیں ہوا تو مزید اصرار چھوڑ دے، اس ملک اور قوم کا بھلاکرنے کی ساری ذمے داری فو ج پر عائد نہیں ہوتی، اگر سندھ کی حکمران اور سینٹ آف پاکستان پر حاوی پیپلزپارٹی کو انصاف سے کوئی لگائو نہیں تو فوج کو کیا پڑی ہے کہ وہ انصاف کے لئے تڑپ رہی ہے۔فوج کے پاس کرنے کے اور کام بہت سے ہیں، ملکی سرحدوں کا دفاع ایک نازک اور بھاری اور بنیادی ذمے داری ہے جسے بھارت اور افغانستان کی طرف سے خطرات ہی خطرات در پیش ہیں۔
فوج اس خطرے سے نبٹے اور داخلی سیکورٹی کا معاملہ پولیس پر چھوڑ دے۔
ایک بات ا ور عرض کئے دیتا ہوں کہ پانامہ جیسے ٹیڑھے مقدمے کا فیصلہ بھی تو آخر سول عدلیہ نے ہی کرنا ہے، اس کی سماعت مکمل ہو چکی ہے اور تاحال فیصلہ محفوظ ہے۔ یہ کبھی تو سامنے آجائے گا نا! اسی طرح دہشت گردوں کے مقدمے بھی یہی سول عدالتیں سنیں اور ان کے فیصلے کرتی رہیں۔ بھٹو کے خلاف سول عدلیہ نے فیصلہ کیا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ا س فیصلے کو نہیں مانتی۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کا مقدمہ بھی سول عدلیہ کے ہاتھ میں رہا، پیپلز پارٹی کسی حال میںمطمئن نہیں۔اسے چاہئے کہ وہ کوئی متبادل عدلیہ کا نام بھی تجویز کرے۔ جیسے انسداد دہشت گردی کی فوری انصاف کی عدلیہ تھی یا کوئی اور عدالتی نظام جو انصاف مہیا کر سکے، آخر انصاف تو ہونا چاہئے یا پیپلز پارٹی سرے سے یہ کہہ دے کہ وہ انصاف کی فراہمی کے حق میں ہی نہیں ہے۔