بابری مسجد شہادت کیس، ایڈوانی اور دیگر کے نام خارج نہیں کئے جا سکتے، بھارتی سپریم کورٹ
نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد شہادت کیس کی سماعت میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مقدمے میں سابق نائب وزیراعظم اور بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی موجودہ مرکزی وزیر اوما بھارتی، کلیان سنگھ، بال ٹھاکرے، ونے کٹیار، گریراج کشور، مرلی منوہر جوشی سمیت 19ملزموں کے نام خارج ہو سکتے ہیں نہ ان کے خلاف بابری مسجد شہید کرانے کی سازش کرنے کے الزامات تکنیکی بنیادوں پر واپس لئے جا سکتے ہیں۔ عدالت اس کی اجازت نہیں دے گی۔ بنچ نے تجویز دی کہ ان 18ملزموں کے کیس اور بابری مسجد پر چڑھ کر اسے شہید کرنے والے نامعلوم کار سیوکوں کے خلاف مقدمے کو اکٹھا کرکے بیک وقت سماعت کی جائے واضح رہے کہ ایل کے ایڈوانی اور دیگر 18ملزموں کے خلاف الہ آباد ہائیکورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کی سازش تیار کرنے کے الزامات ختم کر دئیے تھے جن کے خلاف بھارتی مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی اور مسلمان حاجی محبوب احمد نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے حاجی محبوب اب وفات پا چکے ان کے علاوہ دونوں مقدمات میں ملزم انتہا پسند ہندو رہنما اشوک سنگھل، مہانت اودھیاناتھ، پرمہانس رام چندر داس، موریشور سیو اچاریہ گریراج کشور، شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے مر چکے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ اب 22 مارچ کو کیس کی مزید سماعت کرے گی گزشتہ روز سی بی آئی اور مرحوم محبوب احمد دونوں درخواست گزاروں کے وکلاء نے انتہا پسند ہندو لیڈروں اور بابری مسجد شہید کرنے والے کار سیوکوں (رضاکاروں) کے دونوں مقدمات کو اکٹھا کرنے کی مخالفت کی۔ واضح رہے کہ بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1990ء میں بابری مسجد کے خلاف مہم شروع کی کہ اسے رام مندر کی جگہ پر شہنشاہ بابر نے اپنے جنرل کے ذریعے تعمیر کرایا بابری مسجد رام مندر تنازع 18ویں صدی سے جاری ہے تاہم ایڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا مہم چلا کر ہزاروں ہندوئوں کو بابری مسجد شہید کرانے کے لئے بھڑکایا۔ اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی اور دیگر رہنما ان کے ساتھ ساتھ بھارت کے مختلف شہروں میں جا کر ہندوئوں کے جذبات بھڑکاتے اور ان سے مال و دولت اکٹھا کرتے رہے۔ آخر وحشیوں کے اس بڑے قافلے نے 6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں تاریخی مسجد بابری مسجد پر ہلہ بول دیا۔ ایڈوانی کے ساتھ رتھ یاترا میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی بی جے پی کے نوجوان لیڈر بن کر شریک تھے مگر دونوں مقدمات میں حیرت کا مقام یہ ہے کہ مودی جیسے انتہا پسند کا کہیں ذکر ہے نہ نام شامل کیا گیا۔