’’ سندھ ارسال مع اہدے کے مطابق پانی فراہم کرے ‘‘بلوچستان اسمبلی میں قرارداد منظور
کوئٹہ(بیورو رپورٹ)بلوچستان اسمبلی نے دریائے سندھ سے معاہدے کے مطابق پانی کے حصول کیلئے ارسا کو پابند کرنے سے متعلق قرار داد کی متفقہ منظوری دے دی۔ اسمبلی کا اجلاس سپیکرراحیلہ حمید درانی کی صدارت میں ہوا ۔نیشنل پارٹی کی رکن یاسمین لہڑی نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیڈٹ کالج مستونگ کا پرنسپل جس کا تعلق دوسرے صوبے کے پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے زیر تعلیم 100 سے زائد طلبہ فارغ کئے گئے ہیں اس لئے ایوان کی کارروائی روک کر اس اہم نوعیت کے عوامی مسئلے کو زیر بحث لایا جائے۔ کیڈٹ کالج میں مستونگ کے کوٹے پر عملدرآمد کیا جائے ۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ اس طرح تو نہیں چلے گا ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ اتنی اچھی حکومت ہے مسائل حل ہوگئے اور دوسری طرف اٹھ کر اپنی ہی حکومت کے حوالے سے کوئی کہتا ہے کہ ڈاکٹر ڈیوٹی نہیں دیتا کوئی کہتا ہے کہ کوٹے پر عملدرآمد نہیں ہوتا یہ عملدرآمد کس کا کام ہے ۔نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحق نے بچوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ۔اس پر بات کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے جس پر صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کیڈٹ کالج مستونگ اور پشین کے حوالے سے شکایات آرہی ہیں جن کا جائزہ لینے اور اصل حقائق کا پتہ لگانے کے لئے ہم نے کمیٹی بنادی ہے ۔ وزیر تعلیم کی مثبت یقین دہانی پر یاسمین لہڑی نے تحریک واپس لے لی۔اجلاس میں حاجی محمدخان لہڑی ،یاسمین لہڑی اور راحت بی بی کی مشترکہ قرار داد وزیراعلیٰ کے مشیر محمدخان لہڑی نے سندھ کے ساتھ آبی مسئلے سے متعلق قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی گرین بیلٹ نصیرآباد ڈویژن زرعی اعتبار سے ملک اور خصوصاً صوبے میں ایک الگ پہچان اور اہمیت رکھتا ہے اس علاقے میں زرعی شعبے سے وابستہ زمیندار چاول اور گندم سمیت دیگر اجناس کاشت کرتے ہیں ۔چونکہ نصیرآباد ڈویژن کے نہری نظام سے منسلک علاقے کی زرعی زمینیں جنہیں پٹ فیڈر ،کیرتھر کینال سمیت دیگر چھوٹی نہروں کے ذریعے سکھر بیران اور گڈو بیراج سے پانی فراہم کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں سندھ بلوچستان کے مابین آبی تقسیم کا ایک معاہدہ بھی ہوا تھا جس کے تحت سندھ نے بلوچستان کو ربیع سیزن کے لئے ہر صورت25 سو کیوسک پانی کی فراہمی یقینی بنانی ہے لیکن اس کے باوجود سندھ کی جانب سے ارسا معاہدے 1999ء کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی نہیں دیا جارہا جس کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ ایکڑ اراضی پر زیر کاشت گندم کی فصل ختم اور زمینداروں کو اربوں روپے کے نقصان ہونے کاقوی اندیشہ ہے ۔اس لئے یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ حکومت سندھ سے رجوع کرے کہ وہ معاہدے کے مطابق بلوچستان کوا س کے حصے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ اس معاملے کو سندھ کے ساتھ اٹھا کر فی الفور مسئلے کو حل کرایا جائے نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا سلسلہ ترک کرے ۔ صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمارے حصے کا اتنا پانی بھی نہیں دیا جاتا جس سے ہم اپنی فصلیں سیراب کریں یہ سب کچھ ہمارے ساتھ سندھ کررہا ہے جس کا ہم نے ہمیشہ ہر فورم پر ساتھ دیا ہے کالا باغ ڈیم کی مخالفت ہم نے صرف اور صرف سندھ کی وجہ سے کی مگر اس کے بدلے میں سندھ ہمارے ساتھ نیکی کرنے کی بجائے زیادتی کررہا ہے اور ہمیں ہمارے حصے کا پانی بھی فراہم نہیں کررہا یہ مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے ۔ انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ اس سلسلے میںنہ صرف سندھ سے بات کی جائے بلکہ وفاق سے رابطہ کرنا چاہئے کہ سندھ ہمارے ساتھ یہ زیادتی کررہا ہے اسے پابند کیا جائے کہ وہ آبی معاہدے کی پابندی کرے ۔صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے قرار داد کے متن میں ترمیم کرتے ہوئے جہاں لکھا ہے کہ حکومت سندھ سے رجوع کیا جائے اس کی جگہ یہ الفاظ شامل کئے جائیں کہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاق سے رجوع کرے کہ وہ معاہدے کے مطابق ارساکو پابند کرے کہ وہ بلوچستان کو اس کے حصے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ اراکین کے اظہار خیال کے بعد ایوان نے قرار داد کو مذکورہ ترمیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کرلیا ۔ اجلاس جمعہ10مارچ تک کے لئے ملتوی کردیاگیا۔