کرپشن ختم کرنے کا طریقہ ادبی بیٹھک اور تلاشی
اب تو جہاں بھی جانا ہو۔ وہاں تلاشی لینے والے بہت سرگرم ہوتے ہیں وہ ہر آنے والے کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں جب تلاشی کی بات شروع ہوتی ہے تو صرف تکلف کرتے ہیں۔ آدمی کے چاروں طرف ہاتھ چلا کے جانے کی اجازت دیتے ہیں ان کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ جناب ہم اجازت نہ دیں تو آپ جا نہیں سکتے۔
غریبوں اور عام لوگوں کی تلاشی لینے کا کیا فائدہ ہے کبھی کچھ نہیں ملا تلاشی لینا ہے تو حکمرانوں کی تلاشی لو افسران کی تلاشی لو کبھی ایسا بھی ہو کہ عمران کی تلاشی لی جائے۔ نواز شریف کی تلاشی لی جائے ۔ توہین صرف عام لوگوں کی ہوتی ہے کبھی شریف لوگ نہیں پکڑے گئے عام طور پر کوئی آدمی مشکوک نہیں ہوتا جو خطرناک لوگ ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح نکل جاتے ہیں کوئی شرپسند عام لوگوں کے راستے سے نہیں جائے گا۔ ہمارے ہاں کوئی پلاننگ نہیں کوئی سسٹم نہیں بس کام چلانے کی بات ہوتی ہے۔
ہماری ملاقات برادرم عطاء الرحمن ثاقب سے ہوئی۔ انہوں نے ایسی ایسی بات کی جو سامنے کی بات تھی مگر ہم حیران ہوئے۔ انہوں نے مشہور اور بااختیار لوگوں کی تلاشی کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبروں نے ہمیشہ غریبوں کو اہمیت دی تو پھر ہمارے حکمران کیوں غریبوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔ میں انیس صاحب کو بتا نہ سکا کہ جب حبشہ کی طرف مسلمانوں نے کفار مکہ کی زیادتیوں کے بعد ہجرت کی اور اس کے بعد کفار بھی حبش گئے تو شاہ نے پوچھا کہ محمدؐ کے ساتھ کون لوگ ہیں تو قریش مکہ نے کہا کہ بہت غریب لوگ اور کمزور لوگ ان کا ساتھ دے رہے ہیں تو شاہ جش نے کہا کہ خدا کی قسم وہ سچے ہیں کہ پہلے پہل پیغمبروں کے ساتھ یہی لوگ ہوتے ہیں انہی غریبوں اور ناتواں لوگوں نے قیصر وکسریٰ کو بھی ہلا کے رکھ دیا۔
اونٹوں کے چرانے والوں نے اس شخص کی صحبت میں رہ کر قیصر کے تخت کو روندا کسریٰ کا گریباں چاک کیا ۔
انیس صاحب نے کہا کہ ہمارے زمانے میں جس کے پاس اقتدار نہ ہو۔ اسے رشتہ دار بھی نہیں ملتا اس کے ساتھ ایک جملہ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو تو اللہ کی طرف سے اقتدار ملتا ہے نہ کہ غریب لوگوں کی طرف سے وہ خود ایک امیر کبیر آدمی ہے۔
یہ بات بھی ہوئی کہ گوجر خان والے احمد رفیق اختر اچھے آدمی ہیں مگر ہارون الرشید نے انہیں ایسا بنا دیا ہے کہ وہ داتا صاحب سے بھی بڑے دکھائی دیتے ہیں دراصل لوگ کسی دوسرے کی بڑائی کرتے ہوئے اپنی بڑائی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ انیس صاحب نے ایک اور بات بھی کر دی کہ جس ادارے میں لوگ آنا شروع ہو جائیں وہ حکومت کا ادارہ نہیں رہتا یہ تو میں نے بھی دیکھا ہے کہ الحمراء آرٹس کونسل حکومت کا ادارہ ہے۔ مگر اب وہاں لوگ جاتے ہیں تو وہ حکومت کا ادارہ نہیں رہا۔
میرے بڑے بھائی نامور شاعر خالد احمد نے الحمراء آرٹس کونسل کے نیچے والے کمرے میں بیٹھنا شروع کیا اور پھر وہ مستقل ان کا ڈیرہ بن گیا دوست یار اور دوسرے جونیئر لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے ہونے لگے پھر یہاں تقریبات شروع ہوئیں اور اسے ادبی بیٹھک کہا جانے لگا۔ خالد احمد ایسا بابرکت آدمی تھا کہ وہ یہاں بیٹھا اور تخلیقی لوگوں اور لکھنے پڑھنے والوں کے بیٹھنے کی جگہ بن گئی اس کا نام ہی ادبی بیٹھک پڑ گیا۔
حضرت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کرپشن ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ نظام حکومت ہمارے حوالے کر دیں۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دار طبقہ اپنے مفادات ی بات کرتا ہے۔
میری گزارش یہ ہے کہ ایک زمانے میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں مولانا کی حکومت تھی تو کیا اس دور حکومت میں کرپشن ختم ہو گئی تھی۔ کیا جمعیت العلما اسلام والے اپنے مفادات کی بات نہیں کرتے تھے۔ سیاست میں کسی جماعت کے مفادات نہیں ہوتے؟ مولانا کی پارٹی میں لوگ مفادات کے بغیر سیاست کرتے ہیں؟ ؟ ؟
یہ تو اقتدار حاصل کرنے کا بڑا آسان طریقہ ہے۔
مولانا نے اس کے لئے افسوس کا اظہار کیا کہ مدرسوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ 70 سال میں کبھی مولویوں نے حکمرانی نہیں کی۔ جن کا کوئی نظریہ نہیں جو امریکہ اور یورپ سے ہدایات لیتے ہیں وہ حکومت پر قابض ہیں۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے غلاموں نے یورپ اور امریکہ کے باغیوں اور مخالفوں پر حکمرانی کر لی ہے یہ حکمرانی ہی بذات خود ایک کرپشن ہے۔ کرپٹ حکمران قوم کو کیا دے سکتے ہیں۔
مگر اس کا حل یہ تو نہیں ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمان کے حوالے کر دی جائے تو اس کے بعد مذہبی لوگوں میں جو فرقہ بازی ہے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ کیا ایک فرقے والے دوسرے کی حکومت تسلیم کر لیں گے۔ وہ غیر مذہبی لوگوں کی حکومت کو قبول کر لیتے ہیں مگر اپنے مخالف فرقہ والے کی حکومت کو نہیں مانیں گے۔
مولانا کے ساتھی اور سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے مولانا کی تعریف و تحسین میں حد کر دی ہے۔ حضرت مولانا اگر نہ للکارتے تو شوہروں کو کڑے لگے ہوتے۔ وومن لبریشن والیوں کی طرف سے یہ بات آئی تھی کہ عورتیں چاہیں تو مردوں کو گھروں سے نکال دیں اور انہیں کڑے پہنا دیں۔ وومن لبریشن والیاں کچھ زیادہ ہی لبرل ہو گئی تھیں۔ یہ بات بظاہر ممکن ہی نہ تھی۔ لہٰذا خود بخود ختم ہو گئی جس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمان کو دے رہے ہیں۔
وہ تو پوری لبرل سول سوسائٹی میں یہ شور برپا ہوا تھا کہ یہ کس طرح کی زنانہ آزادی ہے کہ جس کے بعد مردوں کا ناطقہ بند ہو جائے گا۔ مردانہ وار کے مقابلے میں زنانہ وار کا محاورہ زیادہ عام ہو جائے گا۔