مسئلہ کشمیر کے حل تک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مشترکہ مفادات کونسل میں شامل نہیں کیا جاسکتا :چیئرمین سینٹ
اسلا م آباد (ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو مشترکہ مفادات کونسل میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ رضا ربانی نے مشترکہ مفادت کونسل کے بارے میں رپورٹ پر کہا کہ ا ٹھارویں ترمیم کے بعدسی سی آئی اور کابینہ کا درجہ برابر ہے اسی لئے وزیراعظم کی صدارت لازمی قرار دی گئی ہے۔ کابینہ کو تشکیل دینے کے لئے پندرہ جبکہ سی سی آئی تیس دن میں تشکیل دی جاتی ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ سی سی آئی کا درجہ وسیع ہے اسکا ایجنڈا صوبوں نے نہیں وفاق نے دینا ہوتا ہے۔ ریلوے، بجلی سمیت تمام بڑے ادارے وفاق کے زیر انتظام ہیں۔ جب سی سی آئی کا سیکرٹریٹ الگ بنے گا تو وزارت اس کو کیسے چلائے گی۔ سال دوہزار پندرہ سولہ کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی سالانہ رپورٹ پر بحث میں مشاہد حسین سید، سینیٹر تاج حیدر، عثمان کاکڑ اور دیگر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ ہونا چاہئے، موجودہ حکومت مشترکہ مفادات کونسل کو سبوتاژ کر رہی ہے۔ سی سی آئی کو نظرانداز کرنے سے فیڈریشن کمزور ہو رہی ہے، گزشتہ سال سی سی آئی کی پچاس فیصد اجلاس منعقد نہیں ہو سکے۔ مشترکہ مفاد کونسل کے لئے تجاویز دی گئیں جن پر عمل سے فیڈریشن مضبوط ہو گی۔ وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے کہا کہ سی سی آئی آئینی نام ہے اس لئے اسکی اہمیت کو مدنظر رکھا۔ آئندہ کیبنٹ میٹنگ میں منظوری ہونے کے بعد سیکرٹریٹ وجود میں آجائے گا۔ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم آفس کے گزشتہ دو سال کے ٹیلی فون بلز ایک کروڑ چھیاسی لاکھ روپے سے زائد آنے پر پی ٹی آئی کے سینٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ ٹیلی فون، گیس اور بجلی کے بلز کی تفصیلات فراہم کی جائیں جو اعداد وشمار حکومت جاری کرتی ہے ہمیں اس پر اعتبار نہیں ہے۔ سینٹ کو بتایا گیاکہ گیس اور بجلی کے بل پی ڈبلیو ڈی کے بجٹ سے ادا کئے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے بلوں کو نارمل قرار دیا اور کہا کہ سات سے آٹھ لاکھ ماہانہ بل کوئی بڑی بات نہیں، سینٹ میں پاکستان کونسل برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل 2016 اور پاکستان نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل بل 2016 پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بل منظور کر لئے۔ اجلاس میں وزارت انسانی حقوق نے تحریری جواب میں 2016ء میں صوبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کیں۔ وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ اسلام آباد میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 223 کیسز رپورٹ ہوئے۔ 130 ملزم گرفتار کئے گئے۔ پنجاب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 7313 کیس رپورٹ ہوئے۔ اسلام اباد میں 2016ء میں زنا بالجبر کے 39 کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کے 222 کیسز رپورٹ ہوئے۔ غیرت کے نام پر قتل میں 333 افراد، 15 افراد بری اور 6 افراد میں صلح ہوئی ہے۔ ونی کے 7 کیسز رپورٹ ہوئے، 95 افراد ملوث، 2 افراد بری ہوئے۔ پنجاب میں زیادتی کے 2938 کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں زیادتی کیسز میں 4654 افراد ملوث تھے۔ پی آئی اے کی کارکردگی پر خصوصی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ہوٹل اور ریئل اسٹیٹ جیسے غیرضروری محکمے ختم کئے جائیں، مارکیٹنگ اور سیلز کے محکمے علیحدہ کئے جائیں۔ پائلٹ اور طیارے کے عملے کیلئے تربیتی پروگرام رکھے جائیں، آمدن میں اضافے کیلئے دوسری ائرلائنز سے کوڈشیرنگ کی جائے، رسک فری چارٹرڈ فلائٹس کی اجازت دی جائے۔