• news

کم ترقی یافتہ علاقہ جات کمیٹی کا اجلاس، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کیخلاف کارروائی کی ہدایت

اسلام آباد (صباح نیوز) سینٹ فنکشنل کمیٹی کم ترقی یافتہ علاقہ جات نے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے سخت ترین کارروائی کی ہدایت کردی ہے، کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر نے کہا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو 20 فیصد سبسڈی صرف رمضان میں ہی نہیں پورا سال دینی چاہیے بے شک رمضان پیکج کی خصوصی اشیاء نکال دی جائیں۔ یہ درست نہیں کہ غربت صرف رمضان میں ہی آتی ہے۔ غریبوں کے لئے 10 فیصد سبسڈی کم ہے۔ پسماندہ علاقہ جات کی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے پاس لسٹ درست نہیں۔ تمام صوبوں سے کہا جائے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو زیادہ سے زیادہ علاقوں تک رسائی دی جائے تاکہ لوگوں تک چیزیں آسانی سے پہنچ سکیں۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع تھر سے دادو تک بلوچستان اور خیبر پختونخواہ، فاٹا میں بے روزگاری عام ہے۔ پسماندہ علاقہ جات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ملازمت دی جائے تاکہ انہیں کوئی اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکے۔ مرکزی حکومت تاجروں اور کارخانے داروں تک سبسڈی دے رہی ہے۔ عوام کو بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ ملنا چاہیے۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے سخت ترین کارروائی کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ موبائل یوٹیلٹی سٹورز شروع کر کے کمیٹی کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے۔ مقامی و ضلعی انتظامیہ اور ضلعی حکومتوں سے مدد لی جائے۔ حالات ٹھیک کیے جائیں۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن جنگی بنیادوں پر خوراک کی رسد کا آپریشن شروع کرے۔ چیئرمین کمیٹی نے دھماکہ خیز مواد کا لائسنس مسلم باغ بلوچستان میں ایک شخص کو دینے اور کھلی مارکیٹ میں غیر قانونی طور پر بارود کی 1 لاکھ20 ہزار قیمت پر 25 کلو کی ایک پیٹی کی فروخت پر کہا کہ 2013 میں قیمت 31 ہزار اور اب 65 ہزار کے بعد 1 لاکھ20 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ 7 افراد میں سے صرف ایک کو لائسنس ملا ہوا ہے۔ 20 ہزار لوگوں کا روزگار لگا ہوا ہے۔ کرومائٹ کے کان مالکان کے ساتھ زیادتی ہے۔ دھماکہ خیز مواد کی کھلے بازار میں فروخت لوگوں کی زندگیوں کیلئے خطرہ ہے۔ فوری طور پر لائسنس منسوخی کیلئے اقدامات اٹھائیں جائیں اور کمیٹی کو بھی آگاہ کیا جائے۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ بارود دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگنے کا خطرہ ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ ایم ڈی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے آگاہ کیا کہ 60 فیصد کمی ترقی یافتہ علاقہ جات کو ملازمتوں کا کوٹہ دینے کیلئے خصوصی آئینی پیکج کی ضرورت ہے۔ اس سال 17 ارب روپے کی اشیاء فروخت کی گئیں۔ کوئٹہ شہر میں اکائونٹس سٹاف اور ہیڈآفس کے ملازمین کی ملی بھگت کی وجہ سے بدعنوانی کی گئی۔ محکمانہ کارروائی کے ذریعے ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ ایف آئی اے کو کیس بجھوا دیا گیا ہے۔ زونل منیجر پشاور نے بتایا کہ موبائل نظام کے تحت 50 سے60 ٹن سامان تقسیم کیا گیا ہے۔ دہشت گردوں نے کچھ سٹورز لوٹ لیے۔ چترال میں ہنگامی حالات میں 850 کلومیٹر لمبے راستے کے ذریعے سامان خچروں کے ذریعے پہنچایا گیا۔ چترال میں ویئر ہائوس بنایا گیا ہے۔ شانگلہ میں بھی بنایا جا ئے گا۔ سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ دوسال قبل این ٹی ایس ٹیسٹ میں ہزاروں امیدواروں سے کروڑوں روپے فیس لی گئی لیکن بھرتیاں نہیں ہوئیں۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ مارکیٹ میں یوٹیلٹی سٹورزکے گھی کا پانچ روپے، چائے کا چھ اور 9 روپے کا فرق ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل، میر کبیر محمد احمد شاہی، ثمینہ عابد، خالدہ پروین، مولانا تنویر الحق تھانوی، سیکرٹری وزارت پیدوار، ایم ڈی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

ای پیپر-دی نیشن