اور اب سوشل میڈیا کی دہشت گردی
کتنے محاذوں پر لڑیں گے۔
سابق آرمی چیف کے دور میںہم نے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب لڑی۔
نئے آرمی چیف نے فساد کے رد میں ایک نئی جنگ شروع کر دی ہے۔
ابھی اس کی شروعات بھی نہ ہونے پائی تھیں کہ سوشل میڈیا کی دہشت گردی نے ہماری گردن آن دبوچی۔
اور وزیر داخلہ کی طرف سے اعلان یہ ہو اہے کہ سوشل میڈیا نے روش ٹھیک نہ کی تو اسے بند کر دیں گے۔
بند تو ہم نے یو ٹیوب کو بھی کیا تھا، مگر ہم قدم جما کر میدان میںٹھہر نہ سکے، اظہار رائے کی آزادی کے متوالے ہم پر ٹوٹ پڑے اور ہمیں یو ٹیوب کا مقاطعہ ختم کرنا پڑا، ویسے بھی یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، یو ٹیوب دوسرے لنکس کے ذریعے چلتی رہی اور ہمارے پی ٹی اے میں براجمان ٹیکنالوجی کے بزعم خویش ماہرین نے ان لنکس کو بلاک کرنے کی طرف دھیان نہ دیا۔
اب پھر ہم سوشل میڈیاکو بلاک کریں گے تو اظہار رائے کے متوالے پھر میدان میں آ دھمکیں گے۔
آج اظہار رائے کی آزادی کا مطالبہ ہے۔ کل کو عمل کی آزادی کا مطالبہ ہو گا، مذہب تو سرنڈر کر چکا، اب ریاست کہاں کہاں سرنڈر کرے گی، دیکھنے والی بات یہی ہے۔اور ایسی ریاست جو خود کنفیوزڈ ہو، جس کے شہری نہ تو غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے لفظ پھٹیچر اور ریہلو کٹا کو برداشت کریں اور نہ اپنے لیڈر کے بارے میں لفظ غدار کو برداشت کریں، اور وہ یہ بھی مطالبہ کریں کہ اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہئے اور وہ عمل کی آزادی کا حق بھی استعمال کر رہے ہوں تو وہی ہوتا ہے جو اس وقت ہو رہا ہے، شہباز شریف کے بقول یہ صورت حال ہمیںخانہ جنگی میں پھنسا دے گی، وہ تو خونیں خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں مگر ابھی نوبت صرف مکوں اور گھونسوں تک پہنچی ہے یا پیغمبر اسلام ﷺ اور دیگر اسلامی شخصیات کے خلاف تبرہ بازی تک۔ ایک سابق امریکی صدر جارج بش نے نئی صلیبی جنگ کا بگل بجایا تھا، نیا امریکی صدر ٹرمپ عالم ا سلام کے خلاف گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے، اسے مسلمان ممالک اور مسلمانوں سے بیر ہے، وہ حکم پہ حکم صادر کر رہا ہے، ابھی اس ملک کااجتماعی ضمیر مردہ نہیں ہوا، نہ اسے کہیں گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اس ملک کی عدلیہ میں بھی زندگی کی رمق موجود ہے ، مگر کب تک۔ حکومت تو آخر حکومت ہوتی ہے، وہ اپنی منوا نے پر قادر ہوتی ہے، ریاست سے کوئی طاقتور نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا امریکہ اور یورپ میں بھی مستیاں دکھا رہا ہے، سابق برطانوی وزیراعظم نے گوگل کے سربراہ کو پیغام بھجوایا تھا کہ تمہیں اندر کر دوں گا، سابق امریکی صدر نے تمام امریکی سوشل میڈیا کے مالکان کو کانفنرنس میں بلایا اور دھمکی دی کی شرارت سے باز نہ آئے تو جیلوں کی ہو ا کھاﺅ گے، پورے برطانیہ ا ور پورے امریکہ سے ایک شخص نے بھی ان سوشل میڈیا کے مالکان کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، مگر جتنے طرفدار پاکستان میں سوشل میڈیا کے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یہ کوئی نیا مذہب ہے جس کے پیروکار دہشت گردی پر اتر آئے ہیں ۔ وہ اپنی بات منوانے پر مصر ہیں، دوسروں کومغلظات سنانا اپنا حق سمجھتے ہیں، توہین رسالت کو آزادی اظہار کے تحت جائز تصور کرتے ہیں۔ مضحکہ اور تمسخر اڑانا اور ماں بہن ایک کر دینے کو کسی غیر تحریری آئین کا حصہ گردانتے ہیں۔
یہ سوشل میڈیا ہے پیارے۔جس کا کوئی مذہب نہیں ، کوئی ملک نہیں ، کوئی اخلاقیات نہیں، کو ئی ماں باپ نہیں، بہن بھائی نہیں۔ وہ کسی رشتے کو نہیں پہچانتا۔
اور اس سوشل میڈیا کی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے فن سے بھی ہم ناآشنا ہیں۔ نابلد ہیں، اس کی اے بی سی بھی نہیں جانتے اور اگر جانتے ہیں تو ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہونے کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنے آپ کو آزادی اظہار کا چیمپیئن تصور کرتے ہیں۔ یہ آزادی پڑوس کے ملک بھارت میں کشمیریوںکو حاصل نہیں، وہاں ایک نوجوان مقبول وانی نے سوشل میڈیا پر آزادی کے حق میں پرچار کیا تو اسے گولیوں سے بھون دیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا جن عناصر کو ہم سوشل میڈیا کے دہشت گرد سمجھتے ہیں، انہیں گولیوں سے بھون سکتے ہیں، میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کی سوشل میڈیا کے ان عناصر کومیں دہشت گرد نہیں کہہ رہا ، میرے ملک کی معزز عدالت نے انہیں دہشت گرد قرار دیا ہے ا ور ان کا قلع قمع کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، کیا اس حکم کا بھی وہی حشر ہو سکتا ہے جو عام طور پر عدالتی احکامات کا ہوا کرتا ہے۔ پھرعدالتیں توہین عدالت کے نوٹس جاری کر سکتی ہیں، ان پر بھی فیصلے سنا سکتی ہیں مگر جس ملک میں ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو چھوڑ دیا گیا، جس ملک میں کشمیر سنگھ جیسے کھلے دہشت گرد کو سرحد پار پہنچانے کے لئے ایک وفاقی وزیر کی جھنڈے والی گاڑی استعمال کی گئی، وہاں عدالتی احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا جائے گا، آخر یو ٹیوب کو عدالتی حکم پر ہی بند کیا گیا تھا مگر اسے کھولنے کے لئے کسی عدالت سے حکم لینے کی زحمت نہیں کی گئی، بس دفتری بابووںنے کھولنے کا فیصلہ کیا اور یہ کھل گئی ا ور کھل کھیل رہی ہے، اور ہماری عدلیہ اس کا سختی سے نوٹس نہ لیتی تو حکومت سرے سے غافل بیٹھی تھی، اب تو عدالت نے کہا ہے کہ وہ گستاخی پر مبنی مواد کے سلسلے میں وزیر اعظم کوبھی طلب کرے گی۔ ضرور کرنا چاہئے، وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ایک باعمل مسلمان، وہ روضہ رسول اور مسجد نبوی میں باقاعدگی سے حاضری دیتے ہیں۔ وہ ضرور رسول خدا کے گستاخوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔
پاکستان کو مملکت خداداد کہا جاتاہے، اسے اسلام کی جدید فلاحی جمہوری مملکت کے نمونے کے طور پر تخلیق کیا گیا۔ اگر اس مملکت نے نبی آخر الزماںکی گستاخی اور بے حرمتی کرنے والوں کا منہ بند نہ کیا تو اور کون کرے گا۔
یاد رکھئے، رائے کی آزادی کا حق مطلق نہیں کہ آپ جو کہنا اور کرنا چاہیں وہ کہہ ڈالیں اور کر گزریں، اس سے تو دنیا جنگل کی شکل اختیار کر لے گی، ویسے سنا تو یہ ہے کہ جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔