• news

جہاد کا تصور مسخ کیا گیا‘ علماء فتوئوں سے نکلیں‘ دہشت گردی کیخلاف متبادل بیانیہ دیں: نوازشریف

لاہور (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور سے ملک کو پاک کرنے والے ہمارے قومی ہیرو ہیں‘ ملک کا امن شہیدوں کا صدقہ ہے‘ امن‘ عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے‘ شرپسند عناصر کا دین، مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا معرکہ لڑا ہے۔ عوام پنجابی‘ سندھی‘ مہاجر اور پختون کو لڑانے کی سیاست کرنے والوں کو اپنی صفوں سے نکال دیں‘ ہمیں فتوئوں سے آگے نکل کر دین کا اصل بیانیہ پیش کرنا ہے‘ دہشت گردی کے نظریات کے خاتمے کیلئے علماء تعاون کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سنٹرل پولیس آفس کے دورے کے موقع پر منعقدہ تقریب اور جامعہ نعیمیہ میں ’’عالم اسلام کا اتحاد‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آئی جی سینٹرل پولیس آفس کی تقریب میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ‘ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف‘ سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان‘ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان‘ آئی جی مشتاق احمد سکھیرا سمیت صوبائی کابینہ کے ممبران‘ اعلیٰ سول حکام‘ سول سوسائٹی اور شہداء کے لواحقین نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے پنجاب پولیس میں ڈیجیٹل سسٹم کا افتتاح کیا۔ پولیس کے چاق و چوبند دستے نے وزیراعظم کو سلامی دی۔ وزیراعظم نے آئی جی آفس آپریشن روم اور پولیس کمپلینٹ سنٹر کا دورہ کیا انہیں وہاں ڈی آئی جی حسین حبیب نے بریفنگ دی۔ قبل ازیں وزیراعظم نے جامعہ نعیمیہ میں عالم اسلام کا اتحاد کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ نعیمیہ میں عشق مصطفیؐ کی مہک پھیلی ہوئی ہے۔ دہشت گرد انجام کو پہنچیں گے۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ سماج کو دین کے بیانیہ سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کہا معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سہولت کار بن رہے ہیں۔ دہشت گردوں نے جہاد کے پاکیزہ تصور کو مسخ کیا‘ دہشت گردی کے لئے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں جنہیں علماء کرام نے مسترد کرنا ہے۔ علماء دین کو یرغمال بنانے والوں سے آزاد کرائیں۔ انہوں نے کہا پاکستان اور دنیا بھر میں دین امن کے نام پر نفرت اور انتہا پسندی پھیلائی جا رہی ہے۔ ریاست دہشت گردوں کا کھوج لگا رہی ہے لیکن دہشت گردی کا خاتمہ علماء کے کردار کے بغیر ممکن نہیں۔ علماء دین کے غلط استعمال کو روکیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ نعیمیہ آنا میرے لئے روحانی سکون کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کے حوالے سے کہا کہ خون کی ہولی کھیلنے والوں کا اسلام سے کیسے تعلق ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے دین کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا دشمن کے ہاتھ ٹوٹ گئے جیسے ابولہب کے ہاتھ ٹوٹے تھے۔ اکا دکا رہ جانے والے دہشت گرد بھی انجام کو پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا دہشت گردی کی بنیادیں انتہاپسندی میں ہیں۔ علماء فتنے فساد کا دروازہ بند کر سکتے ہیں۔ انہیں اسلام کا اصل بیانیہ عوام کے سامنے رکھنا ہے۔ آئی جی پولیس آفس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عوام پختون، پنجابی، سندھی، مہاجر کو لڑانے کی سیاست کرنے والوں کو اپنی صفوں سے نکال پھینکیں۔ پی ایس ایل نے بتایا کہ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کراچی دہشت گردوں کے خلاف ایک اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل میں پوری قوم ایک طرف تھی اور چند لوگ دوسری طرف تھے۔ انہوں نے آئی جی پولیس کی بیان کردہ پولیس کی کارکردگی پر انہیں شاباش دی تاہم انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں شہریوں کو تھانے سے شکایات ہیں، تھانہ کلچر اور پولیس اہلکاروں کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تلقین کی کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر پولیس کی ٹریننگ کا اہتمام کریں۔ تفتیش کا معیار بہتر کیا جائے اور اس کے لئے پبلک سروس کمشن کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔ انہوں نے کہا پنجاب میں پولیس میں بہت بہتری آئی۔ پندرہ بیس سال پہلے جو پولیس تھی اب اس سے زیادہ بہتر ہے۔ موٹروے پولیس کی ایمانداری، خوش اخلاقی، ہمدردی اور جذبے کا ہر فورم پر خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا پولیس سٹیشن بھی ایسے ہونے چاہئیں جو بے آسرا لوگوں کے لئے سائبان کی حیثیت رکھتے ہوں۔ انہوں نے کہا میرے لئے باعث تشویش ہے کہ تھانوں میں کیسوں کا سراغ نہیں ملتا جہاں سراغ مل جائے اور ملزم گرفتار ہو جائیں انہیں سزا نہیں ملتی۔ ملزمان کو سزا ملنے کی شرح بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا اس کی اور بھی وجوہات ہیں لیکن عام تاثر ہے کہ تفتیش کا معیار ناقص ہونے کی وجہ سے ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا انصاف حاصل کرنا ہر کسی کا حق ہے اور اسے یہ حق ملنا چاہئے۔انہوں نے کہا فوجداری انصاف کا راستہ پولیس سٹیشن سے جاتا ہے۔ شہریوں کو عام طور پر تھانوں سے شکایات ہیں۔ نشانہ بننے والا تھانوں میں خود کو غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔ تھانے کے سٹاف اور آؤٹ لک کو بہتر بنائیں۔ تبدیلی ناممکن نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ علمائے کرام فتنہ و فساد کا دروازہ بند کر سکتے ہیں، مدارس دین کے عالم پیدا کرتے ہیں یا مسلکی مبلغ؟ علمائے کرام اب فتووں سے آگے نکلیں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف متبادل بیانیہ کی ضرورت ہے، علماء قوم کے سامنے دہشت گردی کا متبادل بیانیہ رکھیں، قوم کو انتہا پسندی کے بیانیہ کی غلطی سے آگاہ کیا جائے۔ محراب و منبر سے اتحاد کا پیغام عام کیا جائے، مدارس کی تعلیم متبادل بیانیے سے ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بیانیہ ہونا چاہئے جو ہمارے اسلاف نے پیش کیا، ہمارے اسلاف نے مسجد اور خانقاہ کو امن کا مرکز بنایا، ہمارے اسلاف نے مذہب کے نام پر فساد کی مذمت کی، دہشت گردی کیلئے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں، ہمیں ان دینی دلائل کو رد کرنا ہے، اس معاملے پر علما کو ریاست کی مدد کرنی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ریاست دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا کھوج لگا رہی ہے علماء حکومت کا ساتھ دیں، انتہاپسندی اور جہاد 2 الگ چیزیں ہیں، جہاد کے نظریئے اور بیان کو مسخ کرکے دہشت گردی میں بدل دیاگیا، پھر مسلمانوں کی تفریق کرنے کے بعد جہاد کے نام پر قتل کو جائز قرار دیا گیا، آج اس نظریئے اور اس بیان کو غلط ثابت کرنے اور اسے مسترد کرنے کی اشد ضرورت ہے، حکومت نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قوم اور سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا، سلامتی کے ادروں کو یکسو کیا،فوج کے جوانوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سر ہتھیلیوں پر رکھے، پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کمر کس لی،اللہ نے ہماری مدد کی اور دہشتگردی کے مراکز تباہ کئے گئے، دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے، اکا دکا بچنے والوں کو بھی انجام تک پہنچا کر دم لینگے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے آگے دین کا وہ متبادل بیانیہ رکھنا ہوگا جو مذہب کے نام پر فساد کی مذمت کرتا ہے۔ اب اچھے اور برے طالبان کا دور ختم ہو چکا‘ کھیتوں میں بارود بویا جائے تو پھول نہیں کھلتے۔ انھوں نے کہا کہ علما کو عوام کو بتانا چاہیے کہ وہ معاشرہ مسلم کہلانے کا مستحق نہیں جس میں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسان قتل ہوں، جہاں اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھیں اور جہاں مذہب اختلاف اور تفرقے کا سبب بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی بنیادیں انتہاپسندی میں ہیں، وہ انتہاپسندی جو دین کے نام پر پھیلائی جاتی ہے جس کا ایک مظہر فرقہ واریت ہے اور دوسرے مظہر میں جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا ہے اور خدا کے نام پر بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہی وہ دو بیانیے ہیں جنھوں نے انتہاپسند پیدا کیے۔ پہلے مسلمانوں کی تکفیر کی گئی اور پھر ان کے قتل کو جائز قرار دیا گیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان بیانیوں کی غلطی کو واضح کیا جائے اور ایک نیا بیانیہ جاری کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر ظلم کا بازار گرم کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، عوام کے جان و مال کی حفاظت پہلی ترجیح ہے، معاشرے میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ خون کی ہولی کھیلنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ملک میں نظام کا تسلسل قائم رکھنے کیلئے جمہوریت کا ہونا ضروری ہے۔

ای پیپر-دی نیشن