قرضوں کی پارلیمنٹ سے توثیق ہونی چاہئے‘ رضا ربانی: چاروں صوبوں نے سینٹ کے اختیارات بڑھانے کی حمایت کر دی
اسلام آباد( این این آئی) ’’بااختیار سینیٹ، مضبوط وفاق‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں چاروں صوبوں نے سینیٹ کے اختیارات میں اضافے کی حمایت کردی جبکہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کی حیثیت صفر ہوتی ہے، مشترکہ اجلاس کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ووٹ مساوی ہونے چاہئیں، سینیٹ کے اختیارات میں اضافے کا مقصد قومی اسمبلی کے اختیارات سلب کرنا یا صوبوں کی خودمختاری پر قدغن لگانا نہیں،مشترکہ مفادات کونسل کو بھی غیر فعال بنادیاگیا اور اسے کابینہ ڈویژن کا ادارہ سمجھا جاتا ہے جبکہ سی سی آئی کو کابینہ کے مساوی مقام حاصل ہے، صوبوں کے حقوق سے متعلق سینٹ کی خصوصی کمیٹی کو برقرار رکھا جائے،اسی طرح پارلیمنٹ سے قرضوں کی توثیق کی آئینی شرط عائد کی جائے تاکہ پارلیمنٹ کو معلوم ہو حکومت کتنے قرض لے رہی ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں،وزیر اعلیٰ کو بھی سینٹ میں خطاب کا اختیار ملنا چاہیے اور اس حوالے سے آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ کوئی بھی وزیر اعلیٰ وفاق سے شکایت سے متعلق ایوان بالا میں آ کر اسے بیان کر سکے۔ سیمینار سے قائد ایوان راجہ ظفرالحق، ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفورحیدری، وزیراعلیٰ سندھ مراد شاہ، سپیکر خیبرپی کے اسمبلی اسد قیصر، سپیکر بلوچستان راحیلہ درانی، سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، پنجاب کے وزیر محنت راجہ اشفاق سرور اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ رضا ربانی نے کہا آئین کے تحت قدرتی وسائل پر صوبوں کے 50فیصد انتظامی کنٹرول کو یقینی نہیں بنایا جا سکا ،مشترکہ مفادات کونسل نے ضابطہ کار طے کرنا تھا اسے بھی آج تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینٹ کے ووٹ قومی اسمبلی کے ووٹوں کے برابر ہونے سے وفاق کی اکائیوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔ صوبوں کے مسائل سے سب سے زیادہ آگاہی سینٹ کوہوتی ہے کیونکہ یہاں چاروں صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے۔ انہوں نے کہا میں واضح کرنا چاہتا ہوں مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی ضمانت ہیں، وفاق اور صوبوں میں رابطوں کے فقدان کو دور کرنے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل انتہائی اہم فورم ہے جہاں صوبے آئینی حقوق کی بات کر سکتے ہیں وہیں کسی بھی مسئلے پر کوئی تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے تو سی سی آئی میں اس کا حل تلاش کر لیا جاتاہے مگر موجودہ حکومت نے اس آئینی ادارے کو بھی غیر فعال کر کے رکھ دیا ہے ایسے رویے ہی وفاق اور صوبوں میں دوریوں کا سبب بنتے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے بارے میں آئینی شق پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا اسے کابینہ ڈویژن کا ذیلی ادارہ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کو وفاقی کابینہ کے مساوی حیثیت حاصل ہے اور ہر نئی حکومت کے آنے پر 20 دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل آئینی تقاضا بنا دیا گیا ہے۔ راجہ ظفرالحق نے سینٹ کے اختیارات میں اضافے کی حمایت کرتے ہوئے کہا سینٹ پاکستان کی تاریخ میں نئی، تاریخی اور مثبت روایات کو فروغ دے رہا ہے۔اٹھارویں ترمیم میں سینیٹ کا کلیدی کردار رہا۔اٹھارویں ترمیم کے حقیقی ثمرات کے لیے مجوزہ اقدامات بھی کرنا ہوںگے ۔مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا چاروں صوبوں سے صوبائی رہنمائوں کی شرکت وفاق کی مضبوطی کی خواہش کا ادراک ہے،آمریت جتنی بھی طاقتور رہی جمہوری قوتوں نے بھی جدوجہد جاری رکھی۔ چودھری اعتزازاحسن نے کہا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اختیارات میں توازن نا گزیر ہے۔ سینٹ کی منظورکردہ متفقہ قرارداد کی روشنی میں سینٹ کو بااختیار بنایا جانا چاہیے۔ اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کام کا پابند بنانا چاہیے، یہی جمہوریت کا آمر اور آمریت سے بہترین انتقام ہوگا۔ سینیٹ کو با اختیار بنا کر وفاق اور صوبوں کے کمزور تعلق کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعلی سندھ مرادشاہ نے کہا سینٹ کو مزید مضبوط اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے قومی اسمبلی سے کچھ اختیارات لیے جائیں،سینیٹ کو صوبوں کے مفادات کا محافظ بننا چاہیے، مسترکہ مفادات کونسل میں کسی مسئلے پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ مشترکہ اجلاس کے بجائے سینیٹ میں جانا چاہیے۔ سپیکر خیبرپی کے اسمبلی اسد قیصر نے کہا سینٹ صوبوں کے حقوق کا علمبردار بن کر ابھرا، صوبوں کی مضبوطی وفاق کی مضبوطی ہے،مضبوط اور خودمختار سینٹ ہی مضبوط پاکستان کا ضامن ہوگا۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی نے کہا سینٹ نے قومی یکجہتی کے فروغ اور صوبوں کے حقوق کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینٹ کے براہ راست انتخابات ہونے چاہئیں۔پنجاب کے وزیر محنت راجہ اشفاق سرور نے کہا سینٹ پاکستان کے عوام کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ صباح نیوز کے مطابق رضاربانی نے کہا صوبوں کا دوسرا گھر ایوان بالاء ہے، این ایف سی ایوارڈکا آئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد اعلان ضروری ہے ، وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ کے اعلان میں ناکام رہے تو سینٹ کو اس میں ایک سال کی توسیع اور صوبے کے حصے میں ایک فیصد اضافے کا اختیار ہونا چاہیے۔