’’جوابدہی سے لرزاں‘‘
یہ ’’ویزوں‘‘ والا معاملہ کیا ہے؟ لاتعداد مقدمات کو عزت کے ساتھ بھگتانے والوں پر مزید مقدمات، اِن کو کیا فرق پڑے گا ہاں ’’عدلیہ‘‘ پر مزید بوجھ، کرپشن، بدمعاملگی، میرٹ کی پامالی وغیرہ وغیرہ جیسے درجن بھر سے زائد مقدمات قطار باندھے کھڑے ہیں۔ ہر مقدمہ حیرت، پریشانی کے نئے جہاں دریافت کرتا ہے۔ کئی ادوار کی حکومتی فروگزاشتوں کا ‘‘ٹائی ٹینک‘‘ کا بوجھ ’’مسندِ انصاف‘‘ پر آ پڑا ہے تو دل کو تسلی دیتے الفاظ ہمیں تو شاد کر دیتے ہیں۔ جب ’’بڑی عدالت‘‘ فرمائے کہ ’’جب سارا کام ٹھیکے پر چل رہا ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی ٹھیکے پر دیدو۔ پڑھ کر اپنا کالم یاد آگیا کہ ’’پاکستان کو ٹھیکے پر دیدو‘‘ (مطبوعہ 14 جون 2008ئ) ’’سندھ حکومت ناکام، صوبے کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔ جیسے ریمارکس نے ترقی کے دعوے، حکومتی چراغ گل کر دیئے۔ خود تراشیدہ چیزوں کا مقدر یونہی لکھا ہوتا ہے۔آپ ریمارکس کی بات کرتے ہیں ’’810 سینئر افسران‘‘ کی ترقیاں کالعدم قرار دینے کا فیصلہ برقرار رکھنے کا اقدام بہت سوں کے نصیب جگا گیا۔ بہترین کی موجودگی کے باوجود میرٹ کا قتل، چلیے چھوڑ دیں جناب۔ بحث کیوں، کبھی خوش بھی ہو جایا کریں۔ دوسری طرف بھی ریمارکس سے آگے کا سفر۔ دھاندلی پر ’’سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات، انٹرویوز کالعدم‘‘۔ فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ فضا موافق ہے کوئی اِس بات کا گہرائی سے جائزہ لے کہ ’’14 سال‘‘ ’’انگلش میڈیم‘‘ میں پڑھنے والے ’’سی۔ایس۔ایس‘‘ کے انگلش مضمون میں فیل کیسے ہو جاتے ہیں؟ اتنا بڑا فیصلہ مگر لوگ اب بھی شک کر رہے ہیں۔ عملدرآمد بابت مایوسی کیوں تیر رہی ہے آنکھوں میں؟ ’’المیہ‘‘ مفکر سے زیادہ دانشور جو اُگ آئے ہیں۔ خیر روشن اُجالے کی نرم کرنیں معاشرے پر مہربان ہو رہی ہیں۔ گو کرپشن، ظلم، ناانصافی کا ملبہ بہت بھاری، ثقیل ہو چکا ہے مگر رات تو آتی ہی ختم ہونے کے لئے ہے۔ خبر سنی۔ کونسی؟ خاندانی حکمرانوں کے شہر لاڑکانہ۔ ’’خاکروب‘‘ کی نوکری کے لئے ڈبل ایم اے پاس امیدوار روشن مسقبل کے لئے ’’گٹر‘‘ میں اُتر گئے۔ کیا سنائی نہیں دے رہا۔ سن رہا ہوں، دھیان تو اِدھر نہیں لگ رہا۔ ’’ہمارا کام دنیا کو جنت بنانا ہے‘‘۔ کس کا قول ہے؟ قول نہیں بیان ہے وزیراعظم پاکستان کا۔ ’’مجھ سے سوال بندوں کی خدمت کا ہو گا‘‘۔ اُن بندوں کا بھی جو ٹیسٹ پاس کرنے کے لئے ’’گٹر‘‘ میں اُتر گئے؟ ہم دنیا کو جنت بنانے کی بات کر رہے ہیں یہ بیچ میں ’’گٹر‘‘ کہاں سے آدھمکا۔ ’’جنت‘‘؟ یہ بتائو ’’لاہور، پنڈی، فیصل آباد‘‘ پیرس بن چکے ہیں؟وہ سفیر ویزوں والی بات تو بھول گئے۔ کیا معاملہ ہے۔ پورا جھوٹ تو نہیں ہو سکتا۔ ہاں مکمل سچ بھی مان سکتے ہیں کیونکہ ’’بیحد اندر کے آدمی‘‘ کا سچ ہے۔ ہمارے نزدیک فوجی عدالتوں میں توسیع والا چکر ہے۔ خاص وقت میں خاص مفاہمتی اشارے کے بغیر ممکن نہیں۔ معنویت رکھتا ہے مگر ’’اپنے‘‘ تو شہریت کے دبائو کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ بڑا آدمی اُدھر ہو یا اِدھر ہمیشہ دبائو قبول کرتا ہے۔اِس مرتبہ بھی پہنچ گئے، بھولے نہیں۔ ہولی بھی منائی۔ ’’50 کروڑ‘ بھی دان کر کے وزیراعظم ہائوس آنے کی دعوت دے ڈالی۔ بیان تو بڑا لبرل تھا۔ وہ تو ’’شلوار قمیض‘‘ میں ملبوس تھے۔ لباس کا انداز، خیال سے کیا تعلق۔ اُس میں تو جسم کے آرام، سکون کو پہلے دیکھنا پڑتا ہے اور اقتدار کے لئے تڑکا۔ بڑا آدمی اُدھر ہو یا اِدھر ہمیشہ دبائو قبول کرتا ہے۔ ماضی دماغ میں کھلنے لگا۔ ’’صرف ایک لکیر ہی تو ہے درمیان میں۔ آلو گوشت آپ بھی کھاتے ہیں۔ ہمیں بھی پسند ہے کے بعد ’’72 سال‘‘ مدفن بن گئے۔ خون، آگ، لاکھوں کٹی پھٹی نعشیں ضائع ہو گئیں۔ کیا مطلب۔ کیسے؟ صرف چند الفاظ سے المناک قربانی کا ثمر کھٹا ہو گیا؟ الفاظ سے راستے کھوٹے مت کیا کرو۔ رویے واپسی ممکن بنا سکتے ہیں تو اکڑ کیوں؟ واپسی ہمسایوں کے ساتھ ہو یا عوام کے پاس، ہمیشہ سرخروئی، امن کی راہ دکھاتی ہے۔ جنت کیا چند کانٹے ہی چن دو، عام زندگی کی راہ سے۔ سڑکیں، پل ’’جنت‘‘ تک نہیں جاتے۔ معاش کی فراہمی بغیر رنگ، نسل کے امتیاز کے، انصاف ہر اُس شخص تک جو رسائی، سفارش نہیں رکھتا۔ ’’نوجوان قوم کا اثاثہ ہیں‘‘ کہنے سے اثاثہ نہیں بن جاتے۔ روزگار، نوکری کے مواقع وسیع کرنے کا راستہ ’’گٹر‘‘ کا ڈھکن کھلنے نہیں دیتا۔ تقریروں سے نہ دودھ، شہد کی نہریں بہتی ہیں نہ دعوے شہروں کو پیرس بنا پائے ہاں ’’سیلاب‘‘ وینس ضرور بنا دیتے ہیں۔ ہم سبھی ’’جوابدہی سے لرزاں ہیں‘‘۔ ہونا بھی چاہیے لیکن اقتدار کے تخت پر براجمان ہونے والوں اور ہم میں فرق ہے۔ ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہم اپنا اختیار حکمرانوں کو منتقل کر دیتے ہیں اور وہ ہمارے سونپے گئے اختیار کو ہمارے ہی احساسات کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اِس سب کے باوجود ’’جوابدہی سے لرزاں‘‘؟