یہ سیکولر ازم … !
یاد رہے کہ تیئس کروڑ آبادی کے بھارتی صوبے ’’ اتر پردیش ‘‘ کے حالیہ انتخابات میں کل 403 نشستوں میں سے کسی ایک پر بھی BJP نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا ۔ جو اپنے آپ میں ہندوستانی سیکولر ازم اور جمہوری دعووں کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ دوسری طرف ہر سال کی مانند اس سال بھی23 مارچ کا دن وطنِ عزیز کے طول و عرض میں قومی ولولے اور عقیدت کے ساتھ منایا جا رہا ہے کیونکہ 1940 میں اسی روز بر صغیر کے مسلمانوں نے قرار دادِ لاہور کے ذریعے واضح لائحہ عمل اپناتے ہوئے علیحدہ وطن کا با ضابطہ مطالبہ کیا اور قائد کی متحرک اور فعال قیادت میں معجزانہ طور پر محض 7 بر س کے عرصے میں دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد پاکستان کا وجود عمل میں آیا ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کے بعض نام نہاد دانشور آئے روز قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف قسم کے منفی ریمارکس دیتے رہتے ہیں جس سے بعض نا پختہ ذہنوں میں منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال بہر کیف موجود رہتا ہے ۔غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ناقدین کے ذہنوں میں بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی حالتِ زار کا سرسری سا احوال بھی پیشِ نظر رہے تو شاید کفرانِ نعمت کے مرتکب ان افراد اور گروہوں کی روش میں قدرے مثبت تبدیلی رونما ہو سکے۔
کسے نہیں معلوم کہ بھارت کے جمہوریت اور سیکولر ازم کے تمام دعووں کے باوجود 20 کروڑ کے لگ بھگ ہندوستانی مسلمان آج بھی تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ ایک ہندو دانشور نے کچھ عرصہ پہلے BBC کی ہندی سروس میں بھارتی مسلمانوں کی حالت کا ذکر کرتے کہا کہ اگرچہ بھارت میں ڈاکٹر ذاکر حسین،فخر الدین علی احمد اور عبدالکلام کو صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا اور ممبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی چند مسلمان اداکار اہم کردار کے حامل رہے ہیں۔مگر اس سے آگے بھارتی مسلمانوں کے ضمن میں کوئی اچھی خبر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ سابق بھارتی وزیرِ اعظم ’’من موہن سنگھ‘‘ نے 9 مارچ2005 کو جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں مسلمانوں کا احوال جاننے کے لئے جو سچر کمیٹی بنائی تھی۔وہ 30 نومبر 2006 کو اپنی رپورٹ پیش بھی کر چکی اور منموہن سنگھ کو دس سالہ حکومت کر کے رخصت ہو ئے بھی تین برس بیت چلے مگر مسلمانانِ ہند کی حالت پہلے سے بھی بد تر ہو گئی ہے۔بہر کیف اس ’’سچر ‘‘رپورٹ کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد خطِ افلاس سے نیچے اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔
اگرچہ مغربی بنگال کی کل آبادی کا %25 مسلمان ہیں۔مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2 % ہے۔آسام میں یہ شرح 40 % مگر نوکریاں 11.2% ،کیرالا میں 20% آبادی کے پاس 10.4 فیصد سرکاری نوکری ہے ۔ واضح رہے کہ بھارتی فوج اور خفیہ اداروں نے اپنے یہاں سچر کمیٹی کو سروے کی اجازت ہی نہیں دی تھی مگر عام رائے یہ ہے کہ ان اداروں میں مسلم نمائندگی کی شرح کسی طور بھی 3 فیصد سے زائد نہیں۔ اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6 فیصد ہیں مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4 فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان 11.7 فیصد مگر جیلوں میں کل قیدیوں کا 27.9 فیصد،صوبہ گجرات کی جیلوں میں کل بند افراد کا 25.1 فیصد مسلمان ہے جبکہ آبادی میں یہ تناسب 9.1 فیصد ہے،کرناٹک کی جیلوں میں 17.5 فیصد مسلمان بند ہیں جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23 فیصد ہے،مہاراشٹر کی جیلوں میں ایک برس سے زائد مدت سے قید افراد میں 40.6 مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
بھارتی مسلمانوں کو اس عجیب صورتحال سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہم نوا کہتے ہیں کانگرس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ کانگرس سمیت تمام سیکولر پارٹیاں انڈین آرمی،خفیہ ادارے،پولیس ،میڈیا اور عدلیہ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا ہے ۔بنکوں سے قرضہ ملنا تو دور کی بات اپنے آبائی علاقوں کے باہر کرائے پر دکان یا مکان دیا جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔اور سچر کمیٹی کی ان سفاشات پر گیارہ برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ذرہ برابرعمل درآمد نہیں ہوا۔
ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو یومِ پاکستان مناتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل بہ ظاہر معمولی لیکن در حقیقت انتہائی اہم فرق ملحوظ رکھا جائے کہ با شعور اور زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات (بھلے ہی وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں)،سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔