• news
  • image

نواز شریف وزیر خارجہ کیوں نہیں بناتے؟

سوال اُٹھتا ہے، بار بار اُٹھتا ہے اور پوری شدت سے اُٹھتا ہے کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت پاکستان خارجہ امور کے محاذ پر کمزور کیوں ہے؟ جواب آتا ہے کہ پاکستان اس لیے کمزور ہے کیونکہ اس کا وزیر خارجہ ہی نہیں ہے، پھر سوال اُٹھتا ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ کیوں نہیں ہے؟ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس اِس سوال کے اپنے اپنے جواب اور اپنے اپنے موقف موجود ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم نواز شریف کی تیسری حکومت تو ابھی دو چار برس کی بات ہے، لیکن وزیر خارجہ نہ ہونا دو چار برس کی بات نہیں بلکہ اس کا حقیقی اور اصل پس منظر نصف صدی کے تاریخی قصے میں چھپا ہے۔یہ 60ء کی دہائی کے اوائل سے وسط تک زمانہ تھا، جب جنرل ایوب خان پاکستان کے محض ایک فوجی صدر ہی نہ تھے بلکہ ایک مطلق العنان حکمران اور پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک بھی تھے۔ یوں تو کہنے کو پتہ تک اُن کے علم میں لائے بغیر نہیں ہلایا جاسکتا تھا، لیکن اس کے باوجود صدر ایوب خان اپنی ناک کے عین نیچے ہونے والے کاموں سے بھی بے خبر تھے۔ مثال کے طور پر 1964ء میں کشمیری رہنماء شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے بعد ایوب خان نے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو جی ایچ کیو کے تعاون سے کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھنے کی ہدایت کی۔ جس پر امور خارجہ اور دفاع کے سیکرٹریوں، ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو، چیف آف جنرل اسٹاف اور ڈائریکٹر ملٹری آپریشنزپر مشتمل ایک خفیہ سیل (کشمیر پبلسٹی کمیٹی) قائم کردیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ عزیز احمد اس کمیٹی کے چیئرمین تھے، بیوروکریسی کے بے جا تجسس سے محفوظ رکھنے کے لیے کمیٹی کے اجلاس سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں اُس وقت کے سیکرٹری تعلیم ایم شریف کی رہائش گاہ پر منعقد کیے جاتے تھے۔ بھٹو کی ہدایت پر سیکرٹری خارجہ عزیز احمد نے سیل کے اراکین کو کبھی خبر نہ ہونے دی کہ جو تجاویز وہ وقتا فوقتا پیش کرتے رہتے ہیں، وہ ان کی اپنی ہیں یا صدر ایوب کی ہدایات کی عکاسی کرتی ہیں؟ اِسی طرح صدر کو بھی کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ بھٹو اور عزیز احمد کی جانب سے موصول ہونے والی تجاویز اُن کی ذاتی آراء ہیں یا سیل کی سفارشات؟جنرل گل حسن اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’’1964ء میں ایک روز عزیز احمد نے سیل کو مطلع کیا کہ صدر نے جی ایچ کیو کو دو منصوبے تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ان میں سے ایک منصوبے کا مقصد جنگ بندی لائن کے اس پار سبوتاژ کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور دوسرے کا مقصد کشمیر میں بھیجے جانے والے گوریلوں کو امداد کی فراہمی تھا‘‘۔ صدر ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات کے بقول ’’خوش کن مفروضوں کی بنیاد پر دفتر خارجہ اور انٹیلی جنس اداروں نے دسمبر 1964میں صدر ایوب کو کشمیر آپریشن کا منصوبہ پیش کیا، فروری 1965ء میں یہ منصوبہ کابینہ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا، اجلاس میں جی ایچ کیو کی جانب سے جنرل موسیٰ خان اور دفتر خارجہ کے نمائندوں کے طور پر بھٹو اور عزیز احمد بھی موجود تھے۔پہلے آئی ایس آئی کے ایک خوش گفتار ڈپٹی ڈائریکٹر ٹی ایس جان نے بورڈ پر لگے نقشوں کی مدد سے تفصیلات بیان کیں، جس پر ایوب خان نے حاضرین کی رائے دریافت کی تو سیکرٹری خارجہ عزیز احمد نے ایک جانب بھارت کی کمزور پوزیشن کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں عوامی بغاوت کی لہر کو بھی کچھ اس انداز میں بیان کیا کہ جیسے اہل کشمیر بھارت کے خلاف پھٹ پڑنے کو بس تیار بیٹھے ہوں۔ عزیز احمد کی گفتگو کے دوران ایوب خان سارا وقت اپنے سامنے رکھی نوٹ بک پر کچھ لکھتے رہے۔ سیکرٹری خارجہ اپنی بات مکمل کرچکے تو ایوب خان نے نظریں اوپر اُٹھائیں اور پوچھا کہ کیا کسی اور کو کچھ کہنا ہے؟ لیکن کمانڈر ان چیف جنرل موسی خان اور بھٹو چپ بیٹھے رہے۔ صدر ایوب خان کا لہجہ اچانک انتہائی درشت ہوگیا۔ فائل کو میز پر پٹختے ہوئے بولے ’’اگر کسی کو کچھ نہیں کہنا تو مجھے بتایا جائے کہ دفتر خارجہ اور آئی ایس آئی کو اِس طرح کا منصوبہ بنانے کی اجازت کس نے دی؟ اس طرح کی منصوبہ سازی تو اِن اداروں کا کام ہی نہیں ہے، میں نے تو صرف یہ ہدایت کی تھی کہ کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھی جائے، آپ لوگوں کو حکومت پر اس طرح کا منصوبہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔صدر کی بات سن کر جی ایچ کیو اور دفتر خارجہ دونوں کے حکام میں سراسیمگی پھیل گئی۔ بات آئی گئی ہوگی، لیکن اس سارے منصوبے کے اصل ’’روح رواں‘‘ ذوالفقار علی بھٹو تھے، جنہیں انتخابات کے بعد دوبارہ وزیر خارجہ مقرر کیا جاچکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو دفتر خارجہ میں اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ مل کر بڑی منصوبہ بندی سے گیم کررہے تھے۔ جرنیلوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے بھٹو فوجی حلقوں میں بھارت کے خلاف تیز طرار بیان بازی کرتے دکھائی دیتے۔ بھٹو جنرل اختر ملک اور دیگر فوجی جرنیلوں کو اپنی رہائش گاہ پر چائے پر بلاتے اور کشمیر میں مسلح کارروائیوں کے آغاز کی ضرورت پر زور دیتے۔ بے تکلفانہ ماحول میں فوجی افسر بھٹو کی خوش بیانی اور جذبے سے متاثر ہوکر اپنے دل کی بات بھی زبان پر لے آتے۔ جب یہ سلسلہ بڑھا تو جنرل موسی نے اکتاکر ایوب خان سے شکایت کردی کہ بھٹو فوجی افسروں کی ’’برین واشنگ‘‘ کررہے ہیں، لیکن ان تمام شکایات کا کوئی اثر نہ ہوا اور بھٹو 5 مسلم فاتحین طارق، قاسم، خالد، صلاح الدین اور غزنوی کے نام سے موسوم پانچ دستوں کو فعال کرکے مقبوضہ کشمیر میں اپنا ’’برین چائلڈ‘‘ آپریشن جبرالٹر شروع کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
ٹھوس منصوبہ بندی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر شروع کیا جانے والا یہ آپریشن بری طرح ناکامی سے دو چار ہوا، جس پر جنرل اختر ملک کا وقار جاتا رہا، جنرل موسیٰ خان نے آپریشن گرینڈ سلام کا چارج جنرل اختر ملک سے لے کر 7 ڈویژن کے کمانڈر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا اور آپریشن لپیٹنے کی ہدایت کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں استعمال ہوکراپنا فوجی کیریر تباہ کرنے والے جنرل اختر نے سیکرٹری اطلاعات کے سامنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’’معلوم نہیں کہ میں اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گا‘‘؟ حقیقت یہ تھی کہ آپریشن جبرالٹر کامیاب ہوتا تو اس کا کریڈٹ بھٹو خود لیتے لیکن ناکامی پر سارا مدعا صدر ایوب اور جرنیلوں پر ڈال دیا گیا۔ شاطر وزیر خارجہ کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے 65ء کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ کو بھی منفی انداز میں خوب اچھالا اور پھر آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مل کراپنے ’’ڈیڈی‘‘ کو بالآخر ایوان صدر سے ہی نکال باہر کیا؟قارئین محترم!! یہ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ہوس اقتدار میں وزیر خارجہ اور جرنیل کس طرح مل کر گیم کرتے اور اپنے ہی صدر کو بھی نہ بخشتے؟ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ اِسی طرح کی سرگرمیوں کی بھنک پڑی تو شاہ محمود قریشی سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لینے کے لیے پوری کی پوری کابینہ بر طرف کرنا پڑگئی تھی۔ حیرت ہے کہ آصف علی زرداری یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بار بار سوال کرتے ہیں کہ نواز شریف اپنا وزیر خارجہ کیوں مقرر نہیں کرتے؟ صرف ایک دفعہ صدر بننے والے آصف علی زرداری کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ تین دفعہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو یہ بات کہیں زیادہ معلوم ہے کہ اس طرح کی سازشیں کیسے پرواں چڑھتی ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟

مصطفی بیگ

مصطفی بیگ

epaper

ای پیپر-دی نیشن