فوجی عدالتیں بدقسمتی‘ 2 سال پہلے والی پوزیشن پر آ گئے‘ چیئرمین سینٹ: متبادل آپشن نہیں‘ اسحاق ڈار
اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا ہے کہ انہیں ذاتی طور پر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے متفق ہونے پر دکھ ہوا۔ سینٹ کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ اگر دو سال قبل21 ویں آئینی ترمیم کو پورے ایوان کی کمیٹی میں زیر بحث لایا جاتا تو شاید آج یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ انتہائی افسوس ناک دن اور بدقسمتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں اس لئے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اْن کی جماعت کو فوجی عدالتوں کے معاملے پر تحفظات ہیں۔ جماعت حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے زہریلا گھونٹ پی رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اسی بل سے دوبارہ ڈسے جا رہے ہیں جس سے ہمیں نہیں ڈسے جانا چاہئے تھا۔‘ اعتزاز کا کہنا تھا کہ ’حکومت پر اس لیے اعتماد کر رہے ہیں کہ شاید ہم بھولے اور سادہ لوگ ہیں‘۔ جس پر حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ’وہ اتنے بھی سادہ نہیں، جس پر ایوان میں قہقہہ بلند ہوا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں نہیں۔ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لئے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ناگزیر ہے۔ متبادل آپشن نہیں۔ چیئرمین سینٹ کا کہنا تھا دو سال قبل پارلیمنٹ کے ایوانوں سے وعدہ کیا گیا تھا مدت کے اختتام کے بعد دوبارہ توسیع کی ضرورت نہیں پڑے گی‘ اب آئین میں دوبارہ خلل ڈالا جا رہا ہے‘ ہم پھر 2 برس پہلے والی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت نے قومی مفاد میں متفقہ فیصلہ کیا‘ پیر کو بل قومی اسمبلی سے منظور ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں وقفہ سوالات میں کابینہ ڈویژن کی طرف سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ نیپرا ایکٹ کے تحت بجلی کا ٹیرف مقرر کیا جاتا ہے‘ حکومت بجلی کی فراہمی پر سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ ملک میں 19 سال بعد مردم شماری ہو رہی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں اور صوبوں کو اس میں تعاون کرنا چاہئے‘ مردم شماری کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایات کا ازالہ ہوگا‘ حکومت کی کوشش ہے کہ مردم شماری صاف شفاف ہو۔ وزیر قانون کے جواب کے بعد چیئرمین سینٹ نے مردم شماری کے حوالے سے تحریک التواء کی منظوری کا معاملہ نمٹا دیا۔ سینیٹر طلحہ محمود کے سوال پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ حویلیاں کے قریب طیارے کے حادثے کی انکوائری رپورٹ مکمل ہوتے ہی ایوان میں پیش کردی جائے گی۔ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لئے بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد میں مختلف شاپنگ مالز کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی گئی تاہم صفا گولڈ مال کو عدالتی حکم کے تحت کھلوایا گیا ہے لیکن اس کی بے قاعدگی ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ بے ضابطگیوں میں ملوث کئی سی ڈی اے اہلکار اس وقت جیل میں ہیں۔سینٹ نے پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017ء کی منظوری دیدی۔ سینیٹر امجد پرویز نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ بل سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے سینٹ میں پیش کیا تھا جسے قومی اسمبلی نے مسترد کردیا۔ ایوان بالا کا اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کر رہے ہیں تاکہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے۔
اسلام آباد (محمد فہیم انور سے) اگرچہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مفاہمت ہو چکی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں پیر کے روز فوجی عدالتوںکی مدت میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم آجائے گی اور ایوان سے اس کی منظوری بھی ہو جائے گی مگر سینٹ میں ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی سمیت قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کے اظہار خیال سے ایسا لگتا تھاگویا ان عدالتوں کی مدت میں توسیع ان کی خواہش کے برخلاف ہو رہی ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کررہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اور سینیٹر اعتزاز احسن کے اندر کا دکھ ان کے چہرے اور ان کے الفاظ سے عیاں تھا۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ اخبارات کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ہوگیا ہے آج یہ افسوسناک دن ہے، دو سال قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ مدت کی تکمیل کے بعد دوبارہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی اب دو سال مکمل ہوگئے ہیں آئین میں دوبارہ خلل ڈالا جا رہا ہے۔ سینٹ کمیٹی آف دی ہول نے آرمی ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بلوں پر غور کیا گیا تھا حکومت اگر ان بلوں کو ورکنگ پیپرز کے طور پر ہی استعمال کرلیتی تو آج یہ دن دوبارہ نہ دیکھنا پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ہم حکومت کی یقین دہانی پر ایک بار پھر اعتماد کر رہے ہیں، ہم کڑوا نہیں زہریلا گھونٹ پی رہے ہیں۔ حکومت کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اس لئے کچھ کچھ بے اعتمادی بھی ہے، ہم نظر رکھیں گے ہم حکومت پر ایک بار پھر کیوں اعتماد کررہے ہیں کیونکہ ہم سیدھے اور بھولے لوگ ہیں۔ جب اعتزاز احسن نے حکومت کی بے اعتمادی کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیدھے اور بھولے بھالے ہیں جس پر وفاقی وزیر برجستہ بولے اتنے بھی بھولے نہیں آپ........!!