موت کے 10 سال بعد بھی ’’صدام حسین‘‘ خوف کی علامت‘ ہم نام مشکلات سے دوچار
نئی دہلی (بی بی سی ڈاٹ کام) موت کے 10 سال بعد بھی سابق عراقی صدر صدام حسین کا نام خوف کی علامت بنا ہوا‘ ہم نام افراد کو آج بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا ایک میرین انجینئر اس کا الزام اپنے دادا کو نہیں ٹھہراتے جنہوں نے25 سال قبل اس کا نام عراق کے آمر رہنما پر رکھا تھا۔ 40 سے زائد بار ملازمت ملنے سے انکار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملازمت دینے والے افراد یا ادارے انہیں نوکری دینے سے متنفر ہیں۔ حالانکہ وہ انگریزی میں اپنے نام کے دوسرے حصے حسین میں ’ای‘ کے بجائے ’اے‘ استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ انجینئر صدام حسین نے عدالت سے رجوع کیا ہے تاکہ وہ اپنا نام تبدیل کر کے ساجد رکھ سکیں، لیکن بیوروکریسی کا پہیہ اس قدر سست رفتار ہے اور انہیں نوکری کی تلاش جاری ہے۔ انڈین ریاست جھارکھنڈ کے شہر جمشید پور سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے تمل ناڈو کے نورالسلام یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے دوسال بعد انہیں اس بات کا احساس ہوا۔ وہ کالج کی پڑھائی میں اچھے تھے اور ان کے ساتھی طالب علموں کو نوکریاں مل چکی ہیں لیکن شپنگ کمپنیاں انہیں مسترد کر رہی ہیں۔ صدام نام تبدیل کرنے والے ساجد نے بتایا ہے کہ ’لوگ مجھے نوکری دینے سے ڈرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ڈر رہتا ہے کہ بین الاقوامی سرحدوں پر وہ امیگریشن حکام کے ساتھ مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ 5 مئی کو ہونے والے عدالتی کارروائی میں حکام کو ان کے سکینڈری سکول سرٹیفکیٹس پر نام کی تبدیلی کا حکم جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد ان کے گریجویشن کے کاغذات میں تبدیلی ہوگی۔ اس معاملے میں ساجد اکیلے نہیں ہیں۔ لیکن وہ عراق میں صدام حسین کے نام والوں سے خود کو زیادہ ستم زدہ محسوس کرتے ہیں، جنہیں ایک آمر کو خراج تحسین پیش کرنے کے تناطر میں یہ نام دیا گیا اور اب وہ اس نام کو پسند نہیں کرتے۔ عراق کے صوبہ انبار کے سنی اکثریتی شہر رمادی میں کام کرنے والے صدام نامی ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ان کے والد کو اس لئے ملازمت سے نکال دیا گیا کہ وہ اپنے افسران کو یہ باور نہیں کروا سکے کہ وہ صدام حسین کی بعث پارٹی کے رکن نہیں ہیں۔ اسی طرح کی کئی اور خوفناک کہانیاں ہیں۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ اس کو شیعہ ملیشیا نے پکڑ لیا اور اس کے گھٹنے ٹیک کر اس کے سر پر بندوق تان لی لیکن خوش قسمتی سے بندوق جام ہوگئی اور اسے رہا کر دیا گیا۔ ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ بغداد میں سکول میں ایک کرد بچے کے طور پر ایک اور صدام حسین نامی ہم جماعت کو جانتا تھا۔ فٹبال کھیلتے ہوئے اس پر اکثر یہ آوازیں کسی جاتیں کہ ’صرف ہم ہی نہیں پورا ملک تم سے نفرت کرتا ہے۔‘