شبیہہ الطاف حسین
کچھ عرصے بعد ہمیں کوئی نہ کوئی نان ایشو گھیر لیتا ہے اور توجہ اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہے حالانکہ ملک کے اصل مسائل پڑھے لکھے‘ ان پڑھ‘ امیر اور غریب سبھی جانتے ہیں۔ حسین حقانی کا نام پڑھے لکھے لوگ ضرور جانتے ہیں۔ زندگی میں قلابازیاں لگاتے لگاتے وہ واشنگٹن نشیں ہو گئے۔ جو جی میں آتا ہے‘ لکھتے اور بولتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس کا لوگوں کو پہلے سے علم نہ ہو۔ انکی باتوں کیلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مشورہ دینا ان کے قد کاٹھ میں اضافہ کرنا ہے۔ حمودالرحمن کمیشن سے اب تک ملک میں ہر دورحکومت میں کمیشن ہی تو بنتے رہے ہیں اور کمیشن کی رپورٹوں پر مٹی ڈالی جاتی ہی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے گرجنے والے حسین حقانی نے صحافت میں ڈگری لی۔ اس دور کے فوجی آمر ضیاءالحق کو مرد مومن‘ مرد حق کہا۔ 1990ءمیں وزیراعظم نوازشریف نے اپنا معاون خصوصی بنا لیا۔ انکے انگریزی لکھنے والے قلم اور سلیس اردو نے میاں صاحب کو متاثر کیا۔ 1992ءاور 1993ءمیں سری لنکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے عہدے نے خوب مزہ دیا۔ 1993ءسے 1995ءتک وزیراعظم بینظیربھٹو کی ترجمانی کا منصب مل گیا۔ 1999ءمیں جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کو چلتا کیا تو حسین حقانی نے ایک بار پھر فوجی آمر کو متاثر کرنے کی کوشش کی‘ لیکن مشرف کی ذہانت نے اپنی پولو گراﺅنڈ میں گھوڑا دوڑانے کی اجازت نہ دی۔ ہوشیار لوگ ضرورت سے زیادہ ہوشیار لوگوں کو فاصلے پر رکھتے ہیں۔ جنرل عزیز اور شوکت عزیز کی سفارش بھی کام نہ آئی۔ مایوس ہوکر امریکہ کی راہ لی اور ایک بار پھر بینظیربھٹو کیلئے کام شروع کیا۔ 2008ءمیں جنرل مشرف نے انہیں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ یکم اور 2 مئی 2011ءکی درمیانی شب کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کیلئے شب خون مارا۔ اس واقعے کے ذمہ دار حسین حقانی نہیں تھے‘ اس شب خون کا فیصلہ ان کے کہنے پر نہیں ہوا تھا۔ سفارتکاری میں کوئی بھی اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ حقانی نے واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر امریکیوں کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لندن کے مارے جانے کا واقعہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے سی آئی اے کے گماشتوں کی بڑی تعداد کو پاکستان سفر کو سہولتیں دیں اور فوج کے علم کے بغیر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مدد کی۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کی سیاسی قیادت کی اجازت سے کیا۔ حقانی لیکس سے پہلے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سامنے آچکی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کی اس رپورٹ پر بھی مٹی ڈل چکی ہے۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو تو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا تھا‘ لیکن ایک بھارتی اخبار مشرف دور میں اسے شائع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اگر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آجائے تو پھر حسین حقانی کے انکشافات پر پارلیمانی کمیشن بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
2011ءکی آخری سہ ماہی میں میمو گیٹ سکینڈل منظرعام پر آیا۔ یہ منصور اعجاز کے ساتھ حقانی کی ای میٹنگ تھی جس میں وہ پاک فوج کےخلاف حکومت پاکستان کیلئے امریکی سپورٹ کے خواہاں تھے۔ میموگیٹ معاملے کی تحقیقات کے دوران انہوں نے سپریم کورٹ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر انکی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ فوراً واپس پاکستان آجائینگے‘ لیکن وہ آج تک واپس نہیں آئے۔ حسین حقانی نے جو کچھ کہا اور کیا وہ وطن کی خدمت نہیں‘ امریکہ پاکستان کا اتحادی ہے۔ اسکے باوجود اسے یا کسی دوسرے ملک کو ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ دھوکہ دہی سے خفیہ طریقے سے کسی سفارتکار کی شکل میں کوئی جاسوس یہاں بھیج دے۔ امریکہ اور اسرائیل شیروشکر ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو اپنے ہاں جاسوسی یا حساس معاملات کی چھان بین کی اجازت نہیں دیتے۔ حسین حقانی نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا اور پاکستانی سفیر ہونے کے باوجود امریکی مفادات کیلئے کام کیا اور اس دور کے صدر اور وزیراعظم پر الزامات لگائے۔
اس وقت امریکہ میں مسلم دشمن صدر کا دور حکومت ہے۔ گجرات میں چار ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قاتل بھارتی وزیراعظم مودی ٹرمپ کا یارِ ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ نے سی آئی اے کو ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی ہے۔ افغانستان سے ہم پر دہشت گردی مسلط کی جا رہی ہے۔
حسین حقانی دنیا پر ثابت کرنا چاہتاہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت تو دہشتگردی کا خاتمہ چاہتی ہے‘ لیکن فوج ایسا نہیں کرنے دے رہی۔ ڈان لیکس میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ سیاسی مقتدر شخصیات تو دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کا مطابہ کرتی ہیں‘ لیکن فوج ایسا نہیں کرتی۔ تشویشناک بات کسی ملک کے سفیر کا غدار ہو جانا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جماعت الاحرار‘ تحریک طالبان پاکستان اور داعش افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے پاکستان کےخلاف دہشتگردی پر مبنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرکے عمل کراتی ہیں جبکہ خود کش حملہ آور بھی افغانستان سے ہی آتے ہیں۔ افغانستان الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں۔ ساتھ ہی سرحد کھولنے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے اور نہ کھولنے کی صورت میں دھمکی بھی دے رہا ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے فوری طور پر سرحد کھولنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دی کمیشن اور انکوائری ایکٹ 1956ءکی جگہ نیا ایکٹ سامنے لایا جائے جس کے تحت ہر کمیشن کی رپورٹ کو 30 دن کے اندر اندر منظرعام پر لانا ضروری قرار دیا جائے۔ حقانی اتنا اہم نہیں جتنا اہم ایبٹ آباد کا واقعہ ہے جس میں پاکستان کی انٹیلی جنس سروس یا ملٹری کو بے خبر رکھا گیا۔ حسین حقانی کے اس اعتراف کی اہمیت ہے کہ سویلین حکومت کی منظوری کےساتھ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے علم میں لائے بغیر انہوں نے سی آئی اے کے ایجنٹس کے پاکستان میں داخل ہونے میں مدد کی۔ حسین حقانی کا تعلق امریکی تھنک ٹینک ہیڈسن سے ہے۔ یہ ادارہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کو مشاورت فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کی پاکستان مخالف انڈین گروپس سے بھی قربت ہے۔ پاکستان میں امریکی پالیسیوں کی ہم نوائی میں حسین حقانی پیش پیش ہے۔ حقانی کی امریکی تھنک ٹینک میں شمولیت اپنے ملک سے غداری ہے اور بے وفائی کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ حقانی سیاستدان تو نہیں‘ لیکن الطاف حسین کی شبیہہ ضرور ہے۔ جب تک پاکستان میں امریکی پالیسیوں کیلئے کام کریگا‘ اس وقت تک امریکیوں کی آنکھ کا تارا رہے گا۔ حقانی نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کی گود میں لیٹ کر فیڈر پیا ہے۔ اوباما دور کے اہم واقعات میں میمو سکینڈل‘ ریمنڈ ڈیوس‘ ایبٹ آباد پر حملہ اور سلالہ پر چڑھائی شامل ہے۔ 2009ءمیں پاک امریکہ جوائنٹ انٹیلی جنس آپریشن کے ذریعے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کو نشانہ بنایا گیا‘ لیکن 2010ءکے وسط سے سی آئی اے نے پاکستان میں براہ راست مداخلت شروع کردی۔ یہ مداخلت وسیع پیمانے پر امریکی ایجنٹوں کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔ امریکیوں کو فراخدلانہ ویزے جاری کئے گئے۔ حقانی نے جس تھالی میں کھایا‘ پھر اسی میں سوراخ کر دیا۔ اب وہ پاکستان اور کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت کیلئے قابل اعتبار نہیں رہا۔ اس نے پیپلزپارٹی کو بھی سر پکڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خواجہ آصف نے ہی نہیں‘ رحمن ملک نے بھی حقانی کے بیان پر عدالتی کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ظفر علی شاہ نے تو سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرا دی ہے جس میں زرداری‘ گیلانی اور حقانی کے کورٹ مارشل کی استدعا کی گئی ہے۔ ماضی میں امریکیوں کو جاری ویزوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں۔ حقانی کیلئے پارلیمانی کمیشن کا قیام ایبٹ آباد کمیشن کی تحقیقات کی اشاعت سے مشروط ہونا چاہئے۔