• news
  • image

میرے بزرگ میرے رہنما

محترم مجیدنظامی ،محترم ارشاد حقانی اورمحترم منیر نیازی ،میرے بزرگ اوربہترین استاد تھے۔ بہت یاد آتے ہیں۔ وہ جانے کے بعد ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔ تینوں بڑے نام ہیں۔ یہ بڑے لوگ مجھے دل سے عزیز رکھتے تھے اور میں بھی دل سے انہیں یاد کرتی ہوں۔ بارگاہ الٰہی میں ان کی بہترین آخرت کے لیے دعا کرتی ہوں۔ اللہ اور اس کے حبیب صلی وسلم کے گھر جا کر بھی ان تین ناموں کو یاد رکھتی ہوں۔ یہ تینوں بڑے نام مجھے عزیز رکھتے تھے ، میری رہنمائی کرتے تھے ، موت تک میرے ساتھ رابطے میں تھے۔ صحافت اور ادب و دانشوری کی دنیا میں بڑے دل والے لوگ پھر نہیں آسکے۔ الا ما شا اللہ آج بڑی کرسیوں پر چھوٹے چھوٹے لوگ براجمان ہیں۔پیسہ شہرت اور کمینہ پن ٹپک رہا ہے۔ اس ماحول میں قدم قدم پر مجھے اپنے وہ بڑے لوگ میرے بزرگ یاد آتے ہیں۔ اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب منیر نیازی ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوگئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آگئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آگئے۔ملازمت کے دلچسپ قصے سنایا کرتے تھے 2006ء میں منیر نیازی وفات پا گئے۔ جب تک فون پر بات کرنے کی ہمت رکھتے تھے ، رابطے میں رہے۔ دل کا بہت نرم انسان تھا۔ منیر نیازی ، مجید نظامی ، ارشاد حقانی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ پرانے گھروں اور پرانے فرنیچر کے ساتھ زندگی گزار دی۔ منیر نیازی اور ارشاد حقانی کے گھر چھوٹے تھے۔ اور مجید نظامی کا گھر اتنا پرانا ہو چکا تھا کہ ان کے انتقال کے بعد تعمیر نو کی ضرورت پیش آئی۔ میرے ان تینوں بزرگوں اور اساتذہ کے اوصاف میں بہت سی باتوں میں مشابہت تھی۔ صاف اور کھری بات کیاکرتے تھے۔ طرز زندگی سادہ تھا۔ ا رشاد احمد حقانی صحافت کا درخشندہ ستارہ تھے۔ ان کی نماز جنازہ پر دو اڑھائی سو لوگ تھے۔ محترم مجید نظامی موجود تھے۔ حقانی صاحب کے ادارے کا مالک بھی نماز جنازہ میں موجود نہ تھا۔ صحافت اور شو بازی کی دنیا میں اس سے بڑی سنگدلی اور کیا ہو گی کہ جو موجود ہے اس کو سلام اور موجود نہیں تو ہمیشہ کے لئے سلام۔اس ملک میں "کم نال پیار چم نال نہیں ۔"کرسی کو سلام ہے، بندے سے پیار نہیں۔مفاد پرست ان لوگوں کی زندگی میں دفتر کے چکر لگاتے نہیں تھکتے اور جب بندہ کام کا نہ رہے تو اس کو یاد کرنا بھی پسند نہیں کیا جاتا ۔ کرسی کو سلام میت کی چارپائی کو نہیں۔ صحافی، دانشور اور کالم نویس ارشاد حقانی قصور میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنی نوجوانی میں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور پچاس کے دہائی میں انہوں نے جماعت اسلامی کے جریدے کے لیے بھی کام کیا۔بعد میں جماعت اسلامی سے الگ ہوگئے تھے۔ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور میں بحیثیت لیکچرار کیا۔ جب لاہور سے معروف اخبار کی اشاعت شروع ہوئی تو وہ اس کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ موصوف طویل عرصے تک عارضہ قلب میں مبتلاء رہے اور 24 جنوری2010ء کو انتقال ہوگیا۔ 2014ء میں محترم مجید نظامی کا بھی انتقال ہو گیا۔ صحافت کی دنیا میں دو ہی نام مجھے یاد ہیں جن سے مستفید ہو سکی محترم مجید نظامی اور محترم ارشاد حقانی۔ دونوں نے مجھے صاف ستھری صحافت کا سلیقہ سکھایا اور نو دو لتئے نام نہاد صحافیوں کے حقیقی چہرے بھی دکھا دئیے۔ منیر نیازی میرے حالات زندگی کے بارے میں اکثر مجھے اپنے یہ اشعار سنایا کرتے تھے
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مَرن دا شوق وی سی۔
ارشاد حقانی مرحوم مجھے جب صحافی کہا کرتے،مجھے برا محسوس ہوتا تو مسکرا کر کہتے"صحافی کہتے ہی اس پیشے کو ہیں جو کلمہ حق کہنے کی جرات رکھتا ہو۔ "آج موجود ہوتے تو انہیں بتاتی کہ کلمہ حق کہنے والے کو پاکستان میں " بے وقوف "کہا جاتا ہے اور منیر نیازی مرحوم تو اس دور کا بندہ ہی نہیں تھا۔ مجید نظامی اور منیر نیازی میں صاف گوئی کے علاوہ بھی ایک بات مشترک تھی اور وہ ان کا سپاٹ رویہ تھا۔ مغرور یا متکبر سمجھے جانے والے میرے یہ پیارے لوگ اندر سے انتہائی نرم اور رحم دل تھے۔ لیکن مطلب پرستوں کے ساتھ رویہ ترش رکھتے تھے۔ چند ماہ دوران قیام پاکستان کے نام نہاد صحافیوں اور سیاستدانوں کو جو قریب سے دیکھا تو "قحط الرجال " کا مفہوم سمجھ آگیا۔ زندہ صحافیوں اور دانشوروں میں بھی ایک دو نام قابل ذکر ہیں مگر اوصاف میں ان میں سے کوئی بھی میرے پیارے رہنمائوں مجید نظامی‘ ارشاد حقانی اور منیر نیازی کے پائے کا نہیں۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

epaper

ای پیپر-دی نیشن