ملکی مقاصد پورے نہیں ہوئے‘ قوم متحد ہوکر ترقی کیلئے کوشش کرے: ایوان وقت میں اظہار خیال
لاہور( سیف اللہ سپرا) 23مارچ 1940ء کا دن ہماری تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس دن منٹو پارک میں جو قرارداد پاس ہوئی اس نے برصغیر کے مسلمانوں کی منزل کا تعین کیا۔ قرارداد پاس ہونے کے بعد سات سال تک قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے ایک زبردست تحریک چلائی جس کے نتیجے میں پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان کی صورت میں ہمیں منزل تو مل گئی مگر جن مقاصد کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا وہ ابھی پوری طرح ہمیں نہیں ملے وہ تب پورے ہوں گے جب صحیح معنوں میں اس ملک میں انصاف ہو گا، جمہوریت ہو گی۔ امن و امان ہو گا، بد عنوانی، رشوت ستانی، ظلم چوری ڈکیتی غرض کہ ہر قسم کے جرائم سے پاک ایک خوشحال ریاست ہو گی اس کے لئے ہمیں سب پاکستانیوں کو مل کر جدو جہد کرنا ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے یوم پاکستان کے حوالے سے نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام ایوان وقت میں منعقدہ مذاکرے میں کیا۔ شرکائے نشست میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد، وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی رانا محمد ارشد، رکن پنجاب اسمبلی مرکزی رہنما پی ٹی آئی میاں اسلم اقبال، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر المعظم، مرکزی رہنما پی پی نوید چودھری تھے۔ نظامت انچارج ایوان وقت سیف اللہ سپرا نے کی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ ہر قوم کی زندگی میں ایک دن ایسا ہوتا ہے جو اس کی بنیادوں کو واضح کرتا ہے اور اس کی منزل کا تعین کرتا ہے۔ پاکستان کے لئے وہ اہم دن 23مارچ1940ء کا دن تھا، اس دن تاریخی قرارداد لاہور منظور ہوئی جس سے ہماری منزل کا تعین ہوا، تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر میں ایک ہزار سال تک مسلمان بالا دست رہے، پھر غلامی آئی اور 1857ء میں ہم مکمل غلام ہو گئے۔ جس کے بعد تعلیم، صحت،کاروبار، غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ گئے، مسلمانوں کی یہ پسماندگی دیکھتے ہوئے 1930ء میں علامہ اقبال نے تجویز دی کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں مسلمانوں کی آزاد ریاست ہونی چاہئے۔ اس زمانے میں قائد اعظم کے چودہ نکات بھی آ گئے۔ چنانچہ برصغیر کے مسلمانوں نے علامہ اقبال کے دیئے ہوئے آزاد ریاست کے تصور کو عملی شکل دینے کے لئے قائد اعظم کی قیادت میں جدوجہد شروع کر دی۔ 1940ء میں منٹو پارک لاہور میں برصغیر کے مسلمانوں کے نمائندے اکٹھے ہوئے اور تاریخی قرارداد منظور ہوئی۔ جس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے ایسی آزاد ریاست قائم ہو جہاں وہ آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ اس قرارداد کا دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ جب آزادی مل جائے تو پاکستان کے لوگوں کے لئے انصاف پر مبنی ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں امن و امان ہو، خوشحالی ہو، جمہوریت ہو، لوگوں کو ان کے حقوق ملیں،1940ء میں قرارداد لاہور پاس ہوئی اور سات سال تک برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں جدوجہد کی بالآخر 14اگست 1947ء کو پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست بن گئی، ہندوستان کے مسلمان مختلف فرقوں اور علاقوں میں بٹے ہوئے تھے، قرارداد لاہور نے سب کو اکٹھا کر دیا، یہ اتحاد 1946ء کے انتخابات میں سامنے آیا جس میں مسلم لیگ کے تمام امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ 47ء میں جب ملک قائم ہوا تو اس وقت ہم تمام شعبوں میں زیرو تھے اب ہم نے ترقی کی بھی اور نہیں بھی کی۔ ترقی، اس صورت میں کی ہے کہ اب ہم ایٹمی قوت ہیں، ہماری فوج بہت مضبوط ہے۔ دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں، تعلیم میں ہم بہت پیچھے ہیں معاشی خوشحالی نہیں، آدھی سے زیادہ آبادی غریب ہے، آج پاکستانی قوم کو متحد ہو کر ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی رانا محمد ارشد نے کہا کہ ہم سب کو اپنی ذات اور پارٹی سے بالا تر ہو کر استحکام پاکستان کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن تھا، ہے اور رہے گا۔ حکومت اور افواج پاکستان جس طرح جوانمردی سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے لڑ رہے ہیں، یہ عمل قابل تعریف ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی اور مرکزی رہنما پی ٹی آئی میاں اسلم اقبال نے کہا کہ رکن پنجاب اسمبلی اور مرکزی رہنما پی ٹی آئی میاں اسلم اقبال نے کہا کہ لا تعداد قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ان قربانیوں کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ ایسا ملک ہو گا جہاں پر ہر شہری اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق آزاد زندگی گزار سکے گا۔ لیکن جب سے ملک سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل کر سرمایہ داروں اور انویسٹرز کے ہتھے چڑھ گیا ہے اس وقت سے یوم پاکستان کا تصور دھندلا سا ہو گیا ہے۔ ہم قرارداد پاکستان کے مطابق تشکیل کریں گے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر المعظم نے کہا کہ کچھ لوگ نام نہاد دانشوروں کے جال میں آ کر اور بین الاقوامی طاقتوں کی خوشنودی کی خاطر تحریک پاکستان کے جذبات اور اس بصیرت کو ختم کرنے کے لئے اگر مگر اور لیکن کا سہارا لے کر اپنی دانست میں لبرل بننے کی کوشش کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا اور جن مقاصد کی خاطر برصغیر کے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں، ہم اپنے آپ کو ان مقاصد سے ہم آہنگ کریں۔ ہم ان مقاصد سے دور ہو گئے جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا اور اب کرپشن اور دہشت گردی جیسے مسائل نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے قرارداد مقاصد پر عمل کرکے ہی ہم خوشحال ہو سکتے ہیں۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج پاکستانی قوم فرقوں کی بنیاد پر لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو چکی قرارداد پاکستان اس مقصد کے لئے نہیں تھی جس مقصد کو لے کر ہمارے حکمران اس وقت چل رہے ہیں بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہمیں مل کر جمہوری روشوں کو اجاگر کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کے منڈیٹ کا اقرار کرنا ہو گا اور کڑا احتساب کر کے تمام کرپٹ عناصر کو قرار واقعی سزا دینا ہو گی تا کہ وہ لوگوں کے حقوق نہ چھینیں اور عوام کو لولی پوپ دینے کی بجائے مثبت ترقی کی منازل کی طرف لے کر جانا پڑے گا اور تمام اداروں کو اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔