سینٹ: آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور‘ حکومتی کوششوں کے باوجود مطلوبہ ارکان غیر حاضر ‘ فوجی عدالتوں میں توسیع کے بل پرووٹنگ نہ ہو سکی
اسلام آباد (وقائع نگار + نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) حکومتی کوششوں کے باوجود ایوان بالا سے فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث آئین میں 28ویں ترمیم کا بل منظور نہیں ہوسکا، حکومتی درخواست پر ترمیم 28مارچ تک موخرکردی گئی، جبکہ آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیمی بل کو کثرت سے منظور کرلیا گیا، آئینی ترمیم پر بحث کے دوران وزیراعظم محمد نوازشریف بھی ایوان بالا کے اجلاس میں شریک ہوئے،28ویں ترمیم کی منظوری کیلئے 28مارچ کو چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے اجلاس کی صدارت سے معذرت کرلی۔ آئینی ترمیم پر بحث کو مکمل کرلیا گیا ہے تاہم حکومت کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب مذکورہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اس کے باس دو تہائی اکثریت موجود نہیں تھی چیئرمین رضاربانی نے کہا کہ انہیں اطلاع دی گئی ہے کہ کچھ ارکان باہر ہیں وہ بھی اجلاس کی کارروائی میں حصہ نہیں لینا چاہتے لہذا اجلاس منگل تک ملتوی کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔انہوں نے اس بارے میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق سے رائے لی۔قائد ایوان نے تجویز کی حمایت کی۔ چیئرمین سینٹ نے ارکان کو آگاہ کیا کہ وہ 28 مارچ منگل کو اجلاس کی صدارت نہیں کرسکیںگے، اس معذرت کی پیشگی اطلاع کے بعد چیئرمین نے اجلاس منگل کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔ ایوان میں 28ویں ترمیم پر بحث مکمل ہوئی تو صرف 35ارکان موجود تھے، جس پر ترمیم کی منظوری کا مرحلہ منگل تک موخر کردیا گیا، ایوان بالا میں وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے آرمی ایکٹ 1952میں ضروری ردوبدل اور 28ویں ترمیم کے بلز پیش کئے۔ ایوان میں دو بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد نہ کرنے کی الگ الگ تحاریک کو کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔ چیئرمین رضاربانی نے ترمیم پر بحث کے حوالے سے کارروائی کو نمٹادیا۔ جے یو آئی (ف) کی مذہب کے نام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے خلاف ترمیم ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ حقیقت اس قانون اور ترمیم سے زیادہ تلخ ہے، صرف لفاظی سے کام نہیں چلے گا۔ مذہبی انتہا پسندی ہمارا سب سے بڑا تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دہشت گردی خفیہ طور پر ہورہی ہیں جیسے سیہون شریف حملہ ہوا۔ کچھ واقعات کھلے عام ہو رہے ہیں جیسے کل پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ پیش آیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آئینی ترمیم کا تعلق پارٹی پالیسی کے ساتھ ساتھ ضمیر سے بھی ہے، پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دونگا مگر خود کو کم تر محسوس کرونگا۔ حکومتی اتحادی پختونخواملی عوامی پارٹی، بی این پی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 28ویں ترمیم کی مخالفت کی۔ سینیٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ مذہب اور اسلام کے نام کو اس بل سے نہیں نکالا جارہا، اس لئے ہم حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود اس ایکٹ کی مخالفت کررہے ہیں، بی این پی مینگل کے سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کی جانب سے کہتے ہیں یہ آئینی ترامیم ہمارے شایان شان نہیں لیکن جمہوری جماعت کے دامن میں بھی یہ بات آگئی کہ انہوں نے بھی اس قسم کی ترمیم منطور کروالی، اختیارت مکمل طور پر پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں، اس طرح کے ایکٹ کی حمایت نہیں کریں گے جس سے کسی ڈکٹیٹر کے فلسفے کی بو آتی ہو۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملی ہے، اب بھی قومی سلامتی کو دہشت گردی سے خطرہ ہے، اس صورتحال میں خصوصی اقدامات جاری رکھنے کی ضرورت ہے، فوجی عدالتوں کے حوالے سے گزشتہ آئینی ترمیم میں مذہب اور فرقے کے استعمال کے الفاظ تھے لیکن 28ویں ترمیم میں دہشت گردی میں مذہب اور فرقے کے نام کا غلط استعمال کا لفظ شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی اورسینٹ سے منظوری کے بعد آئینی ترمیم کا بل ایوان صدر بھجوایا جائے گا، صدر ممنون حسین کے دستخط کے بعد یہ بل آئین کا حصہ بن جائے گا۔ ارکان کی اکثریت کا موقف تھا کہ چونکہ اس معاملے پر مزید بحث ہونی چاہئے اس لئے اس آئینی ترمیم کی فوری طور پر منظوری نہ دی جائے۔ بل کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک ہفتے کے لئے کھٹائی میں پڑ گیا۔ فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ آج سیڈ ڈے (افسوسناک دن) ہے اور یہ ڈیموکریٹس اور پارلیمنٹ کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس بلور کا کہنا تھا کہ دوبارہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی نوبت آئے تو وہ دن دیکھنے سے بہتر ہے کہ انہیں موت ہی آ جائے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ آج ایک بدقسمت دن ہے۔ چیئرمین سینٹ نے اعظم سواتی کا قابل اعتراض جملہ بھی کارروائی سے خذف کرا دیا۔