23مارچ ۔۔۔۔ایک عہد کی تکمیل کا دن
سینیٹر سراج الحق
پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے ،اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ،پاکستان کے حصول کیلئے ہمارے آبا ئو اجداد کو آگ اور خون کے جس دریا سے گزرنا پڑا اور جو ناقابل فراموش قربانیاں دینا پڑیں ،وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی ۔قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں ،اپنے اسلاف او ر اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والے حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں ۔پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم !۔ قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذ بات کو پروان چڑھانے میں 23مارچ کا دن قومی زندگی میںبڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداد کوایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ بقول قائد اعظمؒ’’ ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ‘‘۔ بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قریبا ً114خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میںاس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا توانہوں نے فرمایاکہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں ،ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپناسکیں۔ جب تک قوم بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی ، قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
دستور پاکستان میںعوام کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ،عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ ،ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی ۔ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈت آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کی سیاست کا مرکز و محورہی اپنی ذات ہے ۔ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک کہ خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا ، کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی سے ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبودکو فائق نہیں سمجھا جاتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم’’ تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغازکردے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا یا جاسکے ۔کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کیلئے آئین کی بالادستی اور حکمرانی انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عمل داری کے معاملہ میں 102ملکوں میں سے 98ویں نمبر پر ہے ۔قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن ،غربت ،جہالت ،عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے ۔ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کاادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار ،وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیراور قومیت ،لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات ابھار کر تقسیم در تقسیم رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا قیام کسی وقتی جوش یا جذباتی سوچ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے محسن انسانیت حضرت محمدؐکی رہنمائی میں قائم ہونے والی مدینہ منور ہ کی اس اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ اور سوچ کارفرما تھی جس میں ایک عام شہری کو بھی حاکم وقت کے برابر حقوق حاصل تھے۔امن و امان کی صورتحال یہ تھی کہ سونے چاندی سے لدی پھندی ایک عورت بلا خوف و خطر ایک مقام سے اپنی منزل تک سینکڑوںمیل کا سفر تن تنہاطے کرلیتی تھی اور کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔یہ وہ عہد تھا جب فرمانروائے مملکت عوام کی خبر گیری کیلئے راتوں کوگشت کرتے تھے اور حاجت مندوںکی حاجت روائی کیلئے خدمت کے جذبہ سے سرشار ، عوام کے خادم ،اللہ کے سامنے جواب دہ تھے۔پاکستان درحقیقت اسی مثالی مملکت کا تصور تھا،جس پر عمل ہونا باقی ہے۔