• news
  • image

آئین پاکستان کی روح

عزیز ظفرآزاد
بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح سے تحریک پاکستان کے دوران جب بھی کسی نے سوال کیا کہ نومولود مملکت کا آئین کیا ہوگا دستور کیسا ہوگا تو حضرت قائد نے برملا کہا کہ وہ تیرہ سو سال قبل عظیم پیغمبر ؐدے چکے ہیں ۔ فرمان قائد ہے۔" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑہ حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ (13جون 1948 پشاور طلبہ سے خطاب)۔حصول وطن کے موقع پر بے سرو سامانی ، اغیار کی سازش اور اپنوں کی ریشہ دوانی اپنی جگہ مگر تاریخ انسانی میں سب سے بڑی ہجرت اور ان لٹے پٹے قافلوں کی آبادکاری کوئی معمولی چیلنج نہ تھا۔مگر قائد کے سپاہیوں نے بڑی بردباری سے یہ مراحل عبور کرتے ہوئے 7مارچ1949 کو حضرت قائد کی بنائی مملکت میں ان کے واضح کردہ نظام کے اجراء کا آغازکیا ۔ 12مارچ 1949ہماری تاریخ کا وہ روشن دن ہے جب وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پیش کی اور اس دستاویز کو آئین پاکستان کا سرچشمہ قرار دیا ،ہے جس کے مندرجات درج ذیل ہیں۔
قراردادمقاصد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"ہرگاہ کے اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکم مطلق ہے اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی اپنے مقررکردہ حدود کے اندر نیابتاًعطافرمائی اور یہ اختیار حکمرانی مقدس امانت ہے "
" جمہور پاکستان کی نمائندہ یہ مجلس دستور سازفیصلہ کرتی ہے کہ آزاد خود مختار مملکت پاکستان کے لئے ایک دستور مرتب کیا جائے "
" جس کی رو سے مملکت جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے جملہ اختیارات و حقوق حکمرانی استعمال کرے "
"جس میںجمہوریت آزادی مساوات رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کو جس طرح کہ اسلام نے ان کی تشریح کی پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے "
" جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن و سنت نبوی میں متعین ہیں ڈھال سکیں۔ "جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔
" جس کی رو سے وہ علاقے جو پاکستان میں شامل یا ملحق ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں شامل یا اس سے الحاق کریں گے مل کر ایک وفاقیہ بنائیں جس کی وحدتیں مقررہ حدود اربعہ متعینہ اختیارات کے تحت خود مختار ہوں ۔
" جس کی رو سے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو جن میں مرتبہ مواقع کی برابری اور قانون کے روبرو معاشرتی اقتصادی اور سیاسی انصاف اور قانون اخلاق عامہ کے تحت خیال، بیان، عقیدے، ایمان ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہو جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیاجائے ۔
’’جس کی ر و سے عدلیہ کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو‘‘ جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی سلامتی، اس کی آزادی، اس کے جملہ حقوق کا ، میں برو بحر اور فضا پر حقوق اقتدار شامل ہیں، تحفظ کیاجائے۔’’تاکہ اہل پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسرکرسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں اور امن عالم کے قیام اور بنی نوح انسان کی ترقی وبہبود میں کما حقہ اضافہ کر سکیں۔
قراردادمقاصد لیاقت علی خان کے ساتھ مولانا ظفر احمد انصاری ،سردارعبدالرب نشتر ، مولوی تمیز الدین ، مولانا ظفر علی خان کے علاوہ دیگر رہنمائوں کی شب و روز محنت کا ثمر تھا جو پاکستان کی آئین سازی میں سنگ میل اور چراغ منزل ہے ۔12مارچ 1949ء کو قرارداد مقاصد منظور ہونے کے فوراًبعد آئین کے بنیادی اصولوں کیلئے کمیٹی قائم کی گئی جس کے صدر مولوی تمیز الدین اور نائب صدر لیاقت علی تھے اس موقع پر تبصرہ کرتے ہوئے لیاقت علی نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں قیام پاکستان کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے ۔ قرار داد میں وہ بنیادی اصول بیان کئے گئے جن پر آئین پاکستان کو استوار کرنا تھا۔ قرار داد کے مطابق اسلام کے و ضع کردہ جمہوریت مساوات آزادی اور سماجی انصاف کے اصولوں پر عمل کرنا طے پایا ۔
بلاشبہ قرارداد مقاصد آئین پاکستان کی رو ح کا درجہ رکھتی ہے اس پر عمل پیرا ہو کر ہی حصول مملکت کے مقاصدتک رسائی ممکن ہے۔ یہ دستاویز احترام آدمیت کے اس زریں چار ٹر کا عکس ہے جو محسن انسانیت نے بنی انسان کی بھلائی کیلئے پیش کیا ۔ اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے اس آئین پاکستان دنیامیںموجود رائج قوانین میں واحد دستور ہے جس میں حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو تحریر و تسلیم کیا گیا ہے ۔ قرار دادمقاصدمیں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے عہد کے ساتھ عدالتوں کی آزادی اور اقلیتوں کو تحفظ دینے پر بھی زور دیا گیا ۔انتہائی نامساعد صورتحال میں قرارداد مقاصدکی منظوری اس دور کی آئین ساز اسمبلی کایک تاریخی کارنامہ تھا۔آج ہمیں اپنے بزرگوں پر تنقید کے رویے کو ترک کرکے اس دستاویز کی روح کے مطابق آگے بڑھناہے اور بانیء پاکستان کا قوم سے کیا وعدہ وفا کرنا ہے کہ اس سرزمین کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیںگے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن