نغمۂ توحید سے معمور چمن
ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم
قوموں کی زندگی میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے تحریک پاکستان کا جائزہ لیں تو کئی خونچکاں داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ برس ہا برس کی جاں گداز کوششوں کے بعد قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کی کوششوں سے 23مارچ 1940ء کو منٹوپارک لاہور میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ اس میں مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانان برصغیر کا مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل علیحدہ وطن ہونا چاہیے۔ بقول اقبال:
؎شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
قرارداد لاہور سے قبل دو قومی نظریہ پروان چڑھ چکا تھا۔ علامہ محمداقبال نے مسلمان قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرکے سیاسی شعور پیدا کیا تھا کہ مسلمان اپنے حقوق کی پاسداری کرسکیں۔ آزادی سے جی سکیں‘ اللہ کا قانون اپنے اوپر نافذ کرسکیں۔ اس کے لئے علیحدہ اسلامی ریاست کی ضرورت تھی۔ 1930ء میں آلٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ کی صدارت فرماتے ہوئے خطبہ دیا۔ دو قومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’ہندوستان میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں مذہبی تہذیبی‘ ثقافتی‘ تمدن‘ سماجی اور اقتصادی اختلافات اس قدر بنیادی ہیں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوسکتے۔‘‘
حالات وواقعات ایسے ہوگئے تھے کہ پورے ہندوستان میں جگہ جگہ مسلمانوں پر ہر طرح کا ظلم وستم ڈھایا جارہا تھا۔ مسلمان کی شکایات کے باوجود کوئی شنوائی یا دادرسی نہ تھی۔ معاشرتی‘ معاشی‘ ثقافتی اور تہذیبی فرق بڑھتا جارہا تھا۔ ہندو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر ہونے والے جورو ستم میں اضافہ ہو رہا تھا جس سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی تھی۔ معروف دانشور اور لکھاری عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب ہماری قومی جدوجہد میںلکھتے ہیں ’’یو پی‘ سی پی‘ مدراس‘ بہار‘ بمبئی اور اڑیسہ میں کانگریس راج کے دوران میں مسلمانوں پر جو کچھ بیتی اور جن مصائب کا انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس کی کچھ تفصیل پیرپور رپورٹ اور شریف رپورٹ میں درج ہے۔ جب پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگریس کے دوسرے بڑے بڑے رہنمائوں نے ان واقعات سے قطعی انکار کیا تو بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل حق نے ڈنکے کی چوٹ پر جواب دیا کہ اگر نہرو، گاندھی اور راجندر پرشاد کو ان واقعات سے انکار ہے تو میں ان مظالم کی تفصیل بیان کرسکتا ہوں جن کا مجھے براہ راست علم ہے۔ مولوی فضل حق نے 15دسمبر 1939ء کے روزنامہ سٹیٹس مین (Statesman ) میں ایک مضمون لکھا جسے حقیقتاً کانگریس کے خلاف فردِ قرارداد جرم کہنا چاہیے۔‘‘
23مارچ 1940ء کو جو قرارداد لاہور منظور کی گئی اس کی بنا پر مسلمانوں میں جوش وجذبہ اور ہمت پیدا ہوئی جس نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونک دی ۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ ہندو قوم ورہنمائوں کے علاوہ انگریز بھی مسلمانوں کے حق میں نہ تھے۔ عملی طور پر جہاں ضرورت پڑی انگریز کا رجحان مسلمانوں کے بجائے ہندوئوں کے حق میں رہا جس کابعد میں پردہ چاک ہوگیا۔ پاکستان دو صوبوں میں مسلم مملکت کی صورت میں نقشوں پر دکھایا گیا‘ جس کا ذکر 3جون منصوبہ میں بھی کر دیا گیا۔ ایک مغربی پاکستان اور دوسرا مشرقی پاکستان۔ دونوں صوبوں کے الگ الگ بائونڈری کمیشن مقرر کیے گئے‘ وہاں بھی پورا اختیار ریڈکلف کو تھا۔ میں نے 1978ء میں جسٹس (ریٹائرڈ) ایس اے رحمان کا ایک انٹرویو کیا تھا جو ایک ماہ نامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ جسٹس صاحب نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا۔ ’’3جون 1947ء کا اعلان سن کر محسوس ہوا تھا کہ ہماری آزاد ریاست قائم ہو جائے گی۔ مجھے مشرقی پاکستان بائونڈری کمیشن کا ممبر بنایا گیا تھا تو حضرت قائداعظم نے ہمیں پہلے ہی سے ہدایت کر دی تھی کہ جو فیصلہ ریڈکلف دیں گے منظور کرلیا جائے گا۔
23مارچ کا یادگار دن ہر سال آتا ہے۔ پاکستان بنانے کے لئے دن رات کی گئی جدوجہد اور کوششیں یادوں کی صورت در آتی ہیں لیکن وہ دلخراش یادیں بھی تڑپاتی ہیں جو تحریک پاکستان اور پھر تاریخ پاکستان کا حصہ بن گئی ہیں۔ مجھے ایک انٹرویو میں مکتبہ کارواں کے مالک عبدالحمید چودھری نے بتایا تھا کہ ان کا خاندان جالندھر میں آباد تھا وہاں سے لاہور ہجرت کر آیا۔ میں پیچھے تنہا رہ گیا، میرے ایک دوست ڈاکٹر غلام حسین نے کہا میں اپنے جگری سکھ دوست کو مل کر آتا ہوں پھر پاکستان جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین اپنے جگری سکھ دوست سے ملنے گیا‘ دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ سکھ دوست باہر آیا۔ ڈاکٹر نے بتایاکہ ہم اپنے وطن عزیز پاکستان جارہے ہیں‘ میں تمہیں ملنے آیاہوں۔ سکھ دوست نے کہا ٹھہرو میں موڑھے لاتا ہوں‘ تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں وہ گھر واپس چلا گیا۔ چند لمحے بعد بار آیا تو اس نے ایک ہاتھ کمر کے پیچھے کیا ہوا تھا۔ باہر کو دہلیز عبور کرتے ہی اس جگری سکھ دوست نے ڈاکٹر غلام حسین پر حملہ کردیا۔ ڈاکٹر زخمی حالت میں موت وحیات کی کشمکش میں لٹک گیا۔ آخرکار اللہ کو پیارا ہوگیا۔ ایسی ہزاروں داستانیں لوگوں کے سینوں میں دفن ہیں۔ 23مارچ 1940ء کو جس جوش وجذبہ کے ساتھ قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی انہیں پورا کرنے میں اللہ پاک ہماری مدد فرمائے۔ اے اللہ ہم تیری رحمتوں کے مددگار ہیں۔
؎خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو