اسلام کا فلسفہ تعلیم
اسلامی فلسفہ تعلیم کا مقصد صرف انفرادی اصلاح نہیں بلکہ فرد و اجتماع دونوں کی فلاح و بہبود ہے۔ مقاصد تعلیم کے تعین کے سلسلے میں نہ تو اجتماع کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اجتماعی مفاد کی خاطر فرد کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا مقصد اسلامی نظریہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے طلبہ کو تیار کرنا ہے تاکہ پاکستان ایک اسلامی مملکت کی حیثیت سے قائم اور باقی رہ سکے اور اس کا بنیادی نظریہ کمزور نہ پڑنے پائے۔ آج کے مشینی دور میں تعلیم کا ایک مقصد پیشہ ورانہ تربیت بھی ہے۔ اسلامی فلسفہ تعلیم اس سے انحراف نہیں کرتا۔ ابن سینا اور امام غزالیؒ نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیشوں کی تعلیم کو اہمیت دی۔ اسلامی فلسفہ تعلیم کی رُو سے تعلیم کے اہم مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فرد کو ایک کامیاب شہری بنایا جائے کیوں کہ بچے کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد آخرکار ایک شہری کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں بچوں میں اخلاق و کردار کی بلندی کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی، محنت، ضبط نفس اور دیانت کی خوبیاں اُجاگر کی جائیں۔ باہمی تعاون اور جذبۂ خدمت بیدار کیا جائے کیوں کہ شہریت کی تربیت کا مقصد بڑی حد تک سماجی تربیت سے مطابقت رکھتا ہے جہاں تک قرآن اور احادیث نبویؐ کا تعلق ہے تو رسول پاکؐ پر جو پہلی وحی سورہ ’’اقرائ‘‘ نازل ہوئی۔ اس میں خواندگی کی تلقین کی گئی ہے اور قلم کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی فضیلت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس پہلی وحی کو اسلامی نظام تعلیم کا سنگ بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو قرآن مجید نے سورہ بقرہ میں حضرت آدمؑ کی فرشتوں پر جو برتری کا سبب بتایا ہے تو وہ یہی تعلیم ہے چناندہ قرآن مجید کا ارشاد ہے ’’اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے یعنی علوم سکھائے‘‘ اس آیت کریمہ سے علم و دانش کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اہل علم کی برتری کے سلسلے میں مختلف آیات ملتی ہیں۔ سورہ الزمر میں ارشاد ہے ’’اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ کیا اہلِ تعلیم اور جاہل لوگ برابر ہو سکتے ہیں‘‘۔ ایک اور موقع پر سورہ مجادلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور اُن لوگوں کے جن کو تعلیم عطا ہوئی ہے درجات بلند کرے گا‘‘۔ اس طرح سورہ توبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی تعلیم حاصل کرتے رہیں اور جب وہ تعلیم حاصل کر کے واپس آئیں تو اپنی قوم کو تعلیم دے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرائیں تاکہ وہ آگاہ ہو جائیں اور بری باتوں سے پرہیز کریں‘‘۔ اس آیت کریمہ میں دین اور دنیا دونوں کو فلسفہ تعلیم میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح سورہ نعل میں ارشاد ہے ’’اگر تم کو علم نہ ہو تو اہلِ تعلیم سے پوچھ لیا کرو‘‘۔ سورہ فاطر میں ارشاد فرمایا کہ ’’بلاشبہ اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں‘‘۔قرآن مجید کے علاوہ احادیث نبویؐ سے بھی اسلامی نظریہ تعلیم کی وضاحت ملتی ہے جو اس طرح ہے ’’تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے‘‘ (حوالہ طبرانی کبیر)۔ ’’علم و حکمت مومن کی گمشدہ دولت ہے جہاں سے مل جائے اسے حاصل کرنا چاہیے کیوں کہ مومن اس کا زیادہ حقدار ہے‘‘ (ترمذی عن ابی ہریرہ)۔ ’’زمین پر عالم کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان پر ستاروں کی ہے جو بحر و بر کی تاریکیوں کو روشن کرتے ہیں۔ اگر ستارے ماند پڑ جائیں تو دھمنا بھی بھٹکتے پھریں‘‘ (مسند امام احمد)۔ ’’علماء پیغمبروں کے وارث ہوتے ہیں‘‘۔ ’’اللہ تعالیٰ جس کسی کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کو دین کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری عن ابن عباس)۔ ’’تم … سے لحد تک تعلیم حاصل کرتے رہو خواہ اس کے لئے چین جانا پڑے‘‘۔ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ کے علاوہ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام تعلیم کا آغاز مدینہ منورہ سے ہوا۔ اور وہ اس طور پر کہ آنحضرت محمدؐ نے حضرت معصب بن عمیرؓ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لئے مدینہ بھیجا تھا جب آنحضرتؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے یہاں تعلیم کا اسلامی نظام قائم کیا۔ اس نظام تعلیم میں سب سے مقدم اور اہم قرآن کی تعلیم تھی۔ آپؐ نے اس نظام تعلیم کا آغاز اس طرح کیا کہ مسجد نبوی کے ایک حصے میں چبوترہ (صفّہ) بنوایا۔ یہ مسلمانوں کی پہلی اقامتی جامعہ تھی۔ غرض اسلام نے جو نظام تعلیم برپا کیا اس کے انقلابی نتائج برآمد ہوئے کیوں کہ اس کے ذریعہ سے نہ صرف مسلمانوں کی خواندگی کا معیار بڑھا بلکہ انہوں نے تہذیب و تمدن کے اچھے اصول سیکھے۔ مسلمان اس نظام تعلیم کے ذریعہ سے نہ صرف اخلاقی اور ذہنی … سے اعلیٰ کردار کے مالک بنے بلکہ انہوں نے اقوام عالم کو تعلیم دی اور ان پر غلبہ حاصل کیا۔ یہ ہے وہ اسلام کا فلسفہ تعلیم جس کی ایک جھلک میں نے آپ کے سامنے پیش کی۔ اسلام کا نظام تعلیم صرف حدیث و تفسیر تک محدود نہیں بلکہ اس میں سائنس، سیاسیات، معاشیات، عمرانیات، جغرافیہ، طبیعات، فلکیات، ارضیات، نباتات، حیوانات اور تاریخ سب شامل ہیں۔ مسلمانوں نے ان علوم میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔