بھر دو جھولی مری یامحمدؐ
مکرمی! محمدؐ کی زندگی کو قرآن میں اسوہ حسنہ (اچھی مثال) کہا گیا۔ تھی کیا؟ پیدائش سے قبل باپ کا انتقال، 6 سال کی عمر میں ماں کا انتقال، دادا کے ذمے، پھر چچا کے، عسرت میں ہی۔ تو کل میں زندگی گزری، صادق اور امین رہے۔ بعد نبوت سختیاں جھیلیں، واقعات طائف، شعب ابی طالب، غزوہ احد اور شب وروز کے مسائل۔ باقی زندگی کا نقشہ، ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا، گالیاں کھا کر دعائیں دیں، گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا۔ عامل قرآن ہونا تو شان پیغمبری تھی ہی، کیا ہم اس اچھی مثال کے قریب بھی پھٹکتے ہیں یا اسے معیار بناتے ہیں؟ یہی بدقسمتی ہے۔ ادب رسول ملحوظ رہے تو کیسے نہ دل کو چین رہے۔ اللہ نے تو حرف آخر (اسوہ حسنہ‘ کہہ دیا، اب اس خزانے سے محرومی بوجہ کفر ہی ممکن ہے۔ آئیے آج سے ہی زندگیوں میں انقلاب لائیں کہ ’’بھر دو جھولی مری یامحمدؐ‘‘ سے آشنا ہو کر خود کو خوشحال پائیں، اللہ کا لحاظ کرنے سے ہی اللہ کا لحاظ پائیں۔ یہ تبدیلی ممکن ہے، قلبی بات ہے، خرچ کچھ نہیں آتا۔ وما علینا الی البلاغ۔ (معین الحق، 266-P ماڈل ٹائون لاہور)