ہر طرف اندھیرا ہے، روشنی نہیں ابھری
آئے دن نئی بات، نئی سوچ، نئے واقعات حیران کن اور تعجب خیز ماحول کو اچھالتے ہیں۔ ہم بھی سر پکڑے اور گا ہے انگشت بدنداں جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو مزاحمت کی دہشت ہمارے شفاف بلور خیالات کو بہت محتاط رکھنے کی جابرانہ تلقین کرتی ہے۔
خیر یہ تو ایک مانوس اور سرچڑھی حقیقت ہے کہ خود رو دانش وروں کی ایک پلٹون ہے جو منظم ظالمین کو رحمدار طبیب و مسیحا لکھنے کی اتنی زیادہ مشق کر چکی ہے کہ اب الفاظ کی لغت الٹی پڑھی جاتی ہے یوں عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آنا بھی تو فطرت کذب کا تقاضہ ہے۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
کچھ لوگوں کو مامور کر دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ماضی کو اس طرز سے لے کر آئیں کہ گویا اس تذکرہ ماضی کے بغیر قوم کی روایت پر مردنی چھا جائے گی اور ماضی میں ہر مخالف کو قوم کا دائمی دشمن ثابت کیا جائے اور ہر فرد مخالف کو قوم کا ازلی دشمن سمجھ کر اسے اپنے بغض کے تیر پر پرو دیا جائے۔ یہ بے چارے کرایہ بردار خوش آمد دار اپنی قلم کے تقدس کو خوشامد اور ظلم کی اندھی سیاہی سے اس طرح رنگ بے آب دیتے ہیں کہ حرب بے چارے مظلوم بنے ان کی عبارت سیاہ کو سجاتے ہیں۔ جھوٹ کو سچ میں بدلنے والے حرف فروش ایسی کہانی رقم کرتے ہیں کہ بیان و زبان خودکشی پر آمادہ ہوتے ہیں گزشتہ دنوں کرکٹ کے کھیل کو ضمانت امن قرار دیتے ہوئے چھوٹے بڑے قصیدہ نگاروں نے دفاع وطن اور سلامتی ملت کیلئے کرکٹ کو ایک ناگزیر اور بدیہی حقیقت قرار دیا۔
کچھ پرانے سیانے اور دل جلے حق گو پکار اٹھے کہ گلشن کی آبیاری کیلئے وہ کچھ کہو، لکھو جس سے بہار کو کچھ قرار ہو۔ لیکن مرغ کی ایک ٹانگ پر اگر جمہوریت کا بچہ جمھورا تصدیق کر دے تو مرغ کی کیا جرأت کہ وہ پیدائشی طور پر اپنی دوسری ٹانگ کو اپنا فطرتی ورثہ قرار دینے کی ضد کرے۔
لوگ چلاتے ہیں، پیٹتے ہیں کہ ہم پر زندگی کا ماحول تنگ سے تنگ تر ہو رہا ہے تخت نشیںکہتے ہیں کہ ذرا اخبارات کے اشتہار پڑھو کہ ہم نے زندگی کا دائرہ کتنا وسیع کر دیا ہے۔ جگہ جگہ عمارات بلند ہو رہی ہیں۔ سڑکوں کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نسل نو کو لیپ ٹاپ اور تعلیمی وظائف سے نوازا جا رہا ہے۔ لیپ ٹاپ ایک پوری نگارستانی دنیا ہے۔ بھلے برے کی تمیز کے بغیر مادی کائنات کا سب سے بڑا چلتا پھرتا رنگین نمائندہ نو عمر سنسنی خیز خیالات کی مالک نسل نو کا ہمہ وقت استاد دلپسند ہے یہ لیپ ٹاپ اور تعلیمی وظائف بہت اچھی روایت، نسل نو کو حوصلہ قوی سے نوازنے کا سب سے اچھا طریقہ، لیکن کبھی سوچا کہ کس تعلیم کی جانب رغبت دلوائی جا رہی ہے۔ جس تعلیم کا نصاب غیرت باختہ ہے۔ جہاں سے تعلیم کے جوہر اخلاقیات کو دیس نکالا مل چکا ہے۔ تعلیم میں مذہب کی گنجائش کم سے کم کی جا رہی ہے۔
جس نظام سیاست میں تعلیم کے نام پر دین بیزاری اور انسانی حیا و اخلاق کے خلاف ایک خاموش اور دلچسپ ماحول کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
کبھی کبھار جوش تحفظ معصومیت خود میں سیٹھ صاحبان بیرونی اشارہ بازوں سے پاکئی داماں کی حکایت کو دراز کرنے کی فرمائش کرتے ہیں تو برطانیہ کے خوش مزاج ماہرین تعلیم اپنے بیانات میں یہ اشارے فرماتے ہیں کہ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص نظام تعلیم بہت معیاری ہے، انہیں احساس ہی نہیں یقین ہے کہ جس تعلیم کی خواہش مغرب کے مسلم مار فکر مند کرتے ہیں، وہ تعلیم ہمارے سیٹھ صاحبان پوری فکر مندی کیساتھ عام کر رہے ہیں، تعلیم عام ہے، تربیت نہایت خام ہے۔
فرد کی تعمیر کیسے تشکیل پاتی ہے؟ ملت کا وجود کیسے مرتب ہوتا ہے؟ اور قوموں کی اجتماعی حیات کیسے تشکیل پاتی ہے؟ یہ تین مربوط سوال نہ کسی ذہن میں ابھرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی تقریر سے برآمد ہوتے ہیں۔ کسی کونے سے آواز آئے بھی تو پرانی بات کہہ کر رد کی جاتی ہے۔ بہت زیادہ آواز بلند ہو تو دبانے کیلئے قلم مار طرز کے کالم باز بلے باز بن کر اس کی آواز کو گیند بنا دیتے ہیں۔
کون کس سے شکایت کرے۔ قومی تہواروں پر بنے بنائے اور رٹے رٹائے بیانات کو چبا چبا کر تشہیر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جذباتی اور مہمانی باتیں ہوتی ہیں۔ جھوٹ کے پردے دلفریب ہیں اور نظر بندی کو تقویت دیتے ہیں۔
طے کر لیا گیا ہے کہ قوم کے مزاج کو بدل دیا جائے۔ مذہب کو اس کے خانہ جذبات سے علیحدہ کر دیا جائے اور لامذہبیت، لادینیت کو اس کے شعور کی دنیا میں اتار دیا جائے۔ پاکستان کو پاکستان نہ رہنے دیا جائے۔ افیون مار گولیوں میں افیون شامل کر کے نشہ خود فراموش کو برقرار رکھنا دشمنوں کا کارگر حلیہ ہے۔ ہر کام کرائے پر ہو، ٹھیکے پر ہو پروپیگنڈے کے ڈھول کی اونچی آواز کیساتھ ہو۔
دین اور غیرت کی آواز پر چینلز اور اینکرز کو دھمکائو ڈرائو، کان کھنچو اور گردن مڑوڑ دو یا پائوں کے شکنجے سے زمین کھسکا دو۔
کل یوم قرار داد پاکستان کا تاریخی دن گزرا۔ کافی کوشش کی کہ کوئی جاندار، شاندار، دلپذیر بیان کسی بڑے کا کسی ذمہ دار کا کہیں نظر آ جائے۔ لیکن ایک معاصر روزنامے کے سرورق پر ایک بڑا اشتہار تھا جس میں وطن کا ذکر تھا۔ ایک نمایاں اشتہار، دل جذب مسحور کن نعرہ…؎
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسبان اس کے
اشتہار میں کچھ تصویریں، زنانہ اور مردانہ تھیں۔ وطن کا مستقبل اور قوم کا مستقبل اور قوم کی امانت دار، تربیت کا سراپا قوم کی ایک بیٹی کی تصویر تھی۔ احوال بہت سادہ، روایتی اسلامی و مشرقی انداز ندارد، کھلا سر، دوپٹہ، چادر گم، لباس میں مغرب کی پوری نمائندگی تھی ہاتھ میں کتاب، کمر پر لیپ ٹاپ کا بیگ اس دختر قوم کو طالبہ ظاہر کر رہا تھا۔ یہ ہمارے مستقبل کا وطن ہے۔ حالات نئی نئی کروٹیں لے رہے ہیں۔صفحہ اول پر ہی ایک دردناک اور غمگین خبر تھی اورکزئی 5 دہشت گرد ہلاک میجر مدثر صغیر اور سپاہی مطیع اللہ شہید ہو گئے۔
23 مارچ گزر گیا۔ مسلمانوں کے اندرونی اور بیرونی دشمن مستعد ہیں۔ ہمارے شہداء اور ہماری غیرت کا جنازہ ایک ہی وقت میں اٹھ رہا ہے۔