پاناما کیس کا فیصلہ بھٹو کے فیصلے جیسا تہلکہ خیز ہوگا
نواز شریف حکومت جتنی تیزی سے سڑکیں بنانے کی ماہر ہے اُس سے زیادہ تیزی سے اداروں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی بھی ماہر ہے۔ اس کی وجہ شاید اِن کی سیاستدان والی سیاسی لچک ہونے کی بجائے بزنس مین والی باٹا ریٹ غیرلچکدار طبیعت ہے۔ دوستوں کے سمجھانے پر ن لیگ کی قیادت کے کچھ دن اچھے گزر جاتے ہیں مگر جلد ہی وہ دلدلی زمین میں جاگھستے ہیں جس کے اثرات دیکھنے والوں کو نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ن لیگ نے نیوز لیک کا معاملہ فوجی قیادت کی تبدیلی کی دھول میں بھول جانے کی کوشش کی لیکن گزشتہ کور کمانڈرز میٹنگ میں اسے یاد رکھا گیا۔ جہاں یہ اس بات کا اظہار تھا کہ پاک فوج کی عزت کا وعدہ ایک قیادت سے دوسری قیادت میں شفٹ ہوتا ہے وہیں یہ اس بات کی گھنٹی بھی تھی کہ سِول قیادت کو تیاری رکھنی چاہئے۔ حسبِ روایت نواز شریف نے سگنل کو ڈی کوڈ کرنے کی بجائے شو آف اتھارٹی کا ایک اور مظاہرہ کیا۔ ایک ماہ سے بند پاک افغان سرحد وزیراعظم نواز شریف نے عوام کی بھلائی اور کاروباری مفادات کے نام پر کھولنے کا اچانک حکم دے دیا۔ پاک افغان سرحد اِس وقت ہمارے سلامتی کے اداروں کے نزدیک حساس ترین معاملہ ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر دہشت گرد حملے کے بعد اِسے تقریباً ایک ماہ پہلے بند کیا گیا تھا جس کی اطلاع آئی ایس پی آر نے دی تھی جبکہ پاک افغان سرحد کھولنے کی اطلاع وزیراعظم نے خود دی۔ یہاں یہ خیال آتا ہے کہ وزیراعظم نے سرحد کھولنے کا ٹیکنیکل مشورہ کیا سلامتی کے اداروں سے کیا تھا یا ایک مرتبہ پھر وزیراعظم نے اپنے آپ کو تمام اداروں کا بلاشرکت غیر چیف ایگزیکٹو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر پاکستان کی عوام کو شعور دے کر ایک عوامی طاقت بنانے والے انٹرنیشنل ذہین ذوالفقار علی بھٹو عوامی طاقت کے غرور کی حیثیت کو پہچان نہیں سکے تھے تو کیا وزیراعظم نواز شریف عوامی بھلائی اور کاروباری مفادات کے غرور کی حیثیت پہچان سکتے ہیں؟ پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ ہے۔ یہ پاکستان کے اُن چند مقدموں کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے جوہر چھوٹا بڑا جلد سے جلد سننا چاہتا ہے۔ ن لیگ کے حامی اِسے اپنی فتح کے انداز میں سننا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی کے حامی اِسے ن لیگ کی شکست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ باقی سب پاکستانی بھی اس فیصلے میں شدید تجسس رکھتے ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے کے انتظار میں ہرروز ہر پاکستانی منتظر رہتا ہے لیکن فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔ عوامی خواہش پوری ہونے کی اِس دیری کے بارے میں عدالتی معاملات سے ہٹ کر ایک سیاسی تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر پاناما کیس کا فیصلہ فوجی عدالتوں کا بل اسمبلی سے منظور ہونے سے پہلے آجاتا اور فیصلہ نواز شریف کے حق میں نہ ہوتا تو فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ لٹک جاتا جوکہ ضربِ عضب اور ردالفساد کے کاموں میں ایک ٹیکنیکل رکاوٹ تھی۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے سیاسی جماعتوں نے حتی الامکان ڈیلے کی کوشش کی لیکن یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہونا ہی تھا جو ہوگیا۔ اب سیاسی جماعتیں اِسے زہریلا گھونٹ سمجھیں یا موجودہ حکومت کی سابقہ ناقص کارکردگی کہہ کر تنقید کریں۔ فوجی عدالتوں کے بل سمیت دیگر معاملات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ایک دوسرے پر غٹرغوں کی تشریح شیخ رشید نے درست کی ہے کہ ’’نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی انشورنس پالیسیاں ہیں‘‘۔ نواز شریف نے بھی شاید افق پر ابھرتے گہرے سائے دیکھ لئے ہیں جس کی وجہ سے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں انہوں نے اپنے وزراء کو انتخابات کی تیاری کا سگنل دیا ہے۔ حالانکہ الیکشن کی سرکاری تاریخ میں ابھی تقریباً ایک سال باقی ہے۔ ہمارے جمہوری اثاثوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعت شخصی اثر کے تابع ہوتی ہے۔ اگر اُس شخصیت کو سیاسی سربراہی سے ہٹا دیا جائے تو پوری جماعت دھڑام سے گرجاتی ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم شِپ سے ہٹ جانے کے باوجود اُس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہی تو اُس کی منطقی وجہ بھی یہی تھی کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی سربراہی یوسف رضا گیلانی کی بجائے اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے پاس تھی لیکن مسلم لیگ ن کی سیاسی سربراہی صدر مملکت ممنون حسین کی بجائے وزیراعظم نواز شریف کے پاس ہے۔ کیا سب نے 23 مارچ 2017ء کا یہ خصوصی پیغام سنا ہے؟ ’’23 مارچ 1940ء کو پاکستان بنانے کا عہد کیا اور کامیاب ہوئے۔ آئیے ہم پھر عہد کریں ہم پاکستان کو فسادیوں سے پاک کریں گے کیونکہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے‘‘۔ اس بیان کی تشریح یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں ہم فسادی اُسے کہتے ہیں جو بندوق اور بارود کے ذریعے ملک کا امن و امان تباہ کرے لیکن ایک فسادی وہ بھی ہوسکتا ہے جو کرپشن سے ملک کا مالی سکون تباہ کرے۔ پہلی قسم کا فسادی قانون کی نظر میں دہشت گرد جبکہ دوسری قسم کا فسادی عوام کی نظر میں کرپٹ سیاست دان کہلاتا ہے۔ انہی بعض کرپٹ سیاست دانوں کی وجہ سے ایک پاکستان امیر اور غریب پاکستان میں تقسیم ہوا۔ انہی بعض کرپٹ سیاست دانوں کی وجہ سے فسادیوں کے دوسرے کئی روپ سامنے آئے۔ انہی بعض کرپٹ سیاست دانوں کی وجہ سے پاکستانیوں کا ذہنی سکون اور امن برباد ہوا۔ ایک پاکستان وہ ہے جو کئی طبقوں کا پاکستان بنا۔ اب ایک پاکستان وہ بن سکتا ہے جو پرامن پاکستان ہو۔ یعنی دونوں قسم کے فسادیوں سے پاک ہوکر ہی پاکستان ہم سب کا پاکستان بنے گا۔ کرپشن کو سیاست سے نکالنے کے لئے موجودہ پارلیمنٹ کی طرف سے کوئی فولادی قانون سازی نہیں ہوئی مگر اب کرپٹ سیاست دانوں کو پارلیمنٹ سے نکالنے کے لئے عدالت کی طرف سے فیصلہ سازی ہوسکتی ہے۔ فوجی عدالتوں کا بل پارلیمنٹ سے پاس ہوگیا ہے۔ اب پہلی قسم کے فسادیوں کے خلاف ردالفساد میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس لئے دوسری قسم کے فسادیوں کے حوالے سے پاناما کیس کا فیصلہ بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ پاکستان کی 2017ء کی سپریم کورٹ کا پاناما کیس پر فیصلہ 1979ء کی سپریم کورٹ کے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے جیسا تہلکہ خیز ہوسکتا ہے جس کے اثرات ہردو صورت میں پاکستانی سیاست میں دور تک جائیں گے۔