میئر میونسپل کارپوریشن فیصل آباد‘ ویڈیو سکینڈل کی زد میں
احمد کمال نظامی
طلسم ہوشربا کی داستان تو پرانے زمانہ میں لوگ بڑے شوق سے پڑھتے اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے کیونکہ طلسم ہوش ربا میں ہر ذوق کے آدمی کو اس کی پسند کا کوئی نہ کوئی کردار مل ہی جاتا تھا اس داستان میں ایڈونچر بھی ہوتا تھا۔ پریوں بھوتوں، جادو، بھوت پریت گویا کہ سبھی کچھ ہوتا تھا جہاں ظلم و ستم کی نئی سے نئی تاریخ رقم کرنے والے کردار ملتے وہیں ایسے رحم دل، سخی اور انسان دوست کردار بھی ملتے کہ دامن نچوڑیں تو فرشے وضو کریں لیکن طلسم ہوش ربا کا زمانہ اور تھا۔ یہ زمانہ اور ہے اور طلسم ہوش ربا کے لفظ نے اپنی شکل اور ہیت تبدیل کر لی ہے اور فی زمانہ سکینڈل کے الفاظ نے طلسم ہوش ربا کا درجہ حاصل کر لیا ہے اور لفظ سکینڈل میں بھی طلسم چھپا ہوا ہے اور طلسم جیسی طاقت بھی رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے ان معنوں میں سکینڈل بھی ایک جادو یعنی طلسم ہوا۔ زندگی کے تمام شعبہ جات میں سکینڈلز جنم لیتے ہیں کہ دو شعبہ جات ایسے ہیں جو سیاست اور شوبزنس سے تعلق رکھتے ہیں کسی حد تک صحافت کا شعبہ بھی اس کی زد میں آتا ہے۔ سکینڈل میں اس قدر جادوائی طاقت ہوتی ہے کہ وہ عروج و زوال کی کہانی بن جاتا ہے۔ سیاست کی دنیا کا کوئی باسی ہو یا کسی اور شعبہ زندگی سے وابستہ ہو جو بھی اس کی زد میں آتا ہے اس کے اس قدر پرخچے اتارے جاتے ہیں کہ اسے دن کو بھی تارے دکھائی دیتے ہیں اور چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ چونکہ یہ زمانہ سکینڈل اور بالفاظ دیگرے لیکس کا زمانہ ہے لہٰذا فیصل آباد کی بلدیاتی سیاست ان دنوں ویڈیو لیکس کی زد میں ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے نومنتخب میئر ملک عبدالرزاق ان دنوں ویڈیو لیکس کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے میئر کے انتخاب کے موقع پر ووٹ حاصل کرنے کے لئے ووٹروں کے ضمیر کو خریدا ہے۔ یہ ووٹر کوئی عام ووٹر نہیں ہے جو آٹے کی ایک بوری اور بریانی کی ایک پلیٹ کو ضمیر سے بڑی طاقت قرار دیتا ہے بلکہ وہ عوام کا منتخب نمائندہ یعنی یونین کونسل کا چیئرمین ہے۔ میونسپل کارپوریشن اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شیراز کاہلوں نے اپنے بیان میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ میئر میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں کہ ووٹ خریدنے اور فروخت کرنے والوں کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد ملک عبدالرزاق میئر فیصل آباد کے عہدہ پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں لہٰذا وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور چیف الیکشن کمشنر انہیں نااہل قرار دیں۔ شیراز کاہلوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جو لوگ بیس سے پچیس لاکھ روپے میں ایک ووٹ خرید کر اقتدار میں آئے ہیں ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ شیراز کاہلوں کا تعلق بھی حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) سے ہے ایسے ہی بعض تاجر تنظیموں کے نمائندوں جن میں مرکزی کلاتھ بورڈ اتحاد گروپ کے صدر نصیر یوسف وہرا اور اس کے دیگر ساتھیوں کے علاوہ انجمن تاجران سپریم کونسل کے لیڈر اسلم بھلی اور ساتھیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ میئر کارپوریشن ملک عبدالرزاق کی ویڈیو فلم منظرعام پر آنے کے بعد میئر کارپوریشن ملک عبدالرزاق کے خلاف الیکشن کمیشن آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہٰذا انہیں نااہل قرار دیا جائے اور میئر کارپوریشن کا دوبارہ انتخاب کرایا جائے۔ تحریک انصاف کے ایم پی اے شیخ خرم شہزاد، میاں فرخ حبیب، ندیم ڈوگر، ڈاکٹر اد معظم نے پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا ہے کہ ویڈیو لیک سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد الیکشن کمیشن میئر کارپوریشن کے انتخاب کو کالعدم قرار دے۔ تحریک انصاف کے لیڈروں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔ تاجر لیڈروں اور بلدیاتی سیاست کے کھلاڑیوں نے ویڈیو سکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد بیانات کا ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے جبکہ میئر میونسپل کارپوریشن ملک عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ بلیک میلنگ کی سیاست کرنے والوں کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو گا۔ عوام ہماری سیاسی طاقت اور قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ویڈیو سکینڈل کا سہارا لینے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ ویڈیو سکینڈل تو اب منظرعام پر آیا ہے لیکن ووٹوں کی خرید کی کہانی تو انتخابی رات جسے چاند رات بھی قرار دیا جاتا ہے تحریک انصاف سے وابستہ امیدوار سابق سٹی ناظم ممتاز علی چیمہ کی قلابازی نے انتخابی جنگ کا نقشہ ہی پلٹ دیا تھا اور پنجاب کے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں نے ڈنکے کی چوٹ پر بیان دیا تھا کہ انہوں نے ووٹ خریدے ہیں اور ممتاز علی چیمہ نے ہی سودا کار ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ ووٹوں کی خرید کے اس اعترافی بیان کے باوجود پنجاب الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہوا تھا حالانکہ آئینی اور قانونی طور پر آئین کی دفعہ 62، 63 کی دھجیاں ہوا میں بکھیر دی گئیں تھیں۔ ممتاز علی چیمہ جنہیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیادی رکنیت سے بھی مکھن سے بال کی طرح نکال دیا تھا جبکہ رانا ثناء اللہ خاں کے اس اعترافی بیان پر اگر الیکشن کمیشن نوٹس لیتا تو رانا ثناء اللہ مجرم قرار پاتا اور کسی انکوائری کی ضرورت ہی لاحق نہ ہوتی کیونکہ وہ اعتراف جرم کر چکا تھا۔ لہٰذا اب ویڈیو سکینڈل سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے والی بات ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ سیاسی کیدو اپنے وجود کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن ملک عبدالرزاق میئر کارپوریشن کے بعض اقدامات آبیل مجھے مار کے مترادف ہیں جو عوام کے مفادات سے متصادم ہونے کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ جس طرح پیپلزپارٹی کو جنرل ضیاء الحق اپنی تمام تر کوشش، حکمت عملی اور بھٹو دشمنی کے باوجود پیپلزپارٹی کو ختم نہ کر سکے جو آصف علی زرداری نے کر دکھایا اور پیپلزپارٹی قومی سیاسی پارٹی سے صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی۔ ایسے ہی فیصل آباد میں ملک عبدالرزاق میئر کارپوریشن اور چوہدری زاہد نذیر ضلعی ناظم کے اقدامات عوام میں حکمران مسلم لیگ(ن) کے قائدین کے خلاف نفرت بو رہے ہیں۔ ’’منصور کے پردہ میں خدا بول رہا ہے‘‘ کے مصداق میئر اور ضلعی ناظم تو نمائشی بورڈ ہیں اصل طاقت تو رانا ثناء اللہ خاں ہیں جو سامری ہیں اور یہ دونوں اس کے گروشالے ہیں۔ محصول چونگی کے دوبارہ اجراء کی تجویز اور پہلے سے منظورشدہ عمارتوں کے نقشوں کی منظوری کا مجوزہ منصوبہ ضلعی حکومت اور میونسپل کارپوریشن کی آمدن میں اضافے کے لئے نئی نئی ناقابل عمل اور نہ قابل فہم تجاویز کے خلاف شدید عوامی ردعمل اس امر کا غماز ہے کہ ایک سازش کے تحت عوام میں نواز اور شہباز دشمنی کا بیج بویا جا رہا ہے اور یہ سازش کون سیاسی کیدو پروان چڑھا رہا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف جو کہتے ہیں کہ عام آدمی کی بہتری کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر نام نہاد اشرافیہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ انہیں اپنی صفوں میں میرجعفر اور میرصادق کیوں نظر نہیں آتے۔ میئر کارپوریشن ملک عبدالرزاق نے پنجاب کے تمام میئر اور میونسپل اداروں کے سربراہوں کو ایک خط لکھا ہے جس میں عدم اختیارات اور حاصل اختیارات کو بھی بیوروکریسی کے سپرد کرنے پر احتجاجی آواز بلند کرنے کی تجویز اور مشورہ دیا گیا ہے اور ایسا ہی ایک خط وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو تحریر کیا گیا اور اسے ایک تحریک کی شکل دینے کے لئے میڈیا پر سرمایہ کاری بھی کی جارہی ہے۔ میاں محمد شہبازشریف اس امر کا جائزہ لیں کہ تاریں کس کیدو کی انگلیوں پر حرکت کر رہی ہیں اور اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سا مائنڈ سیٹ ہے جو کام تحریک انصاف اپنی تمام تر اختلافی سیاست کے باوجود نہیں کر پا رہی وہ کام کیدو کر رہا ہے اور شہد کے نام پر زہر کھایا جا رہا ہے۔ لہٰذا میاں محمد شہبازشریف اس پہلو پر غور کریں اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ محض ایک بیوروکریٹ کو اپنی انگلیوں کے اشارہ پر نہ چلنے کی سزا دینے کے لئے پورے گلستان کو ویران کرنے کے لئے سامری کیدو کیا کھیل کھیل رہا ہے۔