مہنگائی میں مسلسل اضافہ‘ درآمدات بڑھنے سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ ساڑھے5 ارب ڈالرہو گیا: سٹیٹ بنک
کراچی(کامرس رپورٹر+ نیوز ایجنسیاں) سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹرنگ پالیسی کمیٹی نے شرح سود5.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ حقیقی اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار بدستور بڑھ رہی جسے بہتر زرعی پیداوار، بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے اہم شعبوں میں نمو اور نجی شعبے کو قرضے میں عمدہ اضافے سے سہارا ملا ہے جبکہ مالی سال2014ء سے شرح سود کم ترین سطح پر رہنے کی وجہ سے حقیقی آمدنی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے تاہم مالی رقوم کی آمد کے تسلسل، سی پیک سے متعلق درآمدات، اور تیل کے عالمی نرخ میں کوئی بڑا اتار چڑھائو ہی مالی سال 18ء میں بیرونی شعبے کی مجموعی صورتحال کا درست تعین کریگا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتے کے روز مانیٹرنگ پالیسی کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی شرح نمو مزید تیز ہونے کی توقع ہے۔ رسدی پہلو کوئی بڑا دبائوتقریباً غیر موجود تھا تاہم مالی سال 14ء سے پست شرحِ سود کے حالات میں بڑھتی ہوئی حقیقی آمدنی ملکی طلب میں اضافے کی علامت ہے جس کا وسیع پیمانے پر اظہار گرانی کے پیمانوں سے بھی ہوتا ہے۔ مستقبل میں صارفین کا بڑھتا ہوا اعتماد، جیسا کہ مارچ 2017ء کے آئی بی اے – ایس بی پی اعتمادِ صارف سروے سے ظاہر ہے، اس بات کی علامت ہے کہ صارف کی طلب مزید بڑھے گی۔ تاہم لاگت کے حوالے سے کسی بڑے دھچکے سے قطع نظر ، مالی سال 18ء میں عمومی مہنگائی کے بنیادی رجحان کی وضاحت ملکی طلب سے ہوگی۔ سٹیٹ بینک کے مطابق حقیقی اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار بدستور بڑھ رہی جس کے کئی عوامل میں جن میں خام مال کی پست لاگت، مثبت اقتصادی احساسات، توانائی کی بہتر رسد، اور سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں مالی سال 17ء میں جی ڈی پی کی نمو مزید بہتر ہونے کی توقع ہے۔ نیز مانیٹری پالیسی موقف کا نتیجہ مارکیٹ میں کم اور مستحکم شرح سود کی صورت میں عمدگی سے نکلا ہے، جس سے نجی شعبے کو اپنے کاروبار کی مالکاری اور سرمایہ کاری سرگرمیوں کے لیے کمرشل بینکوں سے قرضہ لینے کی ترغیب ملی۔ اس طرح نجی شعبے کا قرضہ جولائی تا فروری مالی سال 17ء کے دوران 349 ارب روپے بڑھ گیا جو گذشتہ سال اسی عرصہ میں 267 ارب روپے بڑھا تھا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ نجی شعبے کے کاروباری قرضوں میں معینہ سرمایہ کاری سب سے آگے رہی جس میں اس عرصے کے دوران 159 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو گذشتہ سال اسی عرصے میں 102 ارب روپے ہوا تھا۔ اسی طرح رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں صارفی مالکاری میں نمو کا رجحان برقرار رہا۔ بین البینک سیالیت کی بہتر صورتحال نے بھی نجی شعبے کے قرضے میں نمو کو مہمیز دی۔اس کا سبب یہ دونوں عوامل تھے: کمرشل بینکوں کو حکومت کی طرف سے قرضے کی خالص ادائیگیاں اور بینکوں کے ڈپازٹس میں معقول اضافہ، جبکہ اس کے مقابلے میں گذشتہ برس رقوم نکلوائی گئی تھیں۔ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی بیان کے مطابق بازارِ زر کے سوچے سمجھے سودوں کے باعث بین البینک سیالیت کا انتظام اچھا رہا۔ مرکزی بینک کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق سپلائی سائیڈ پریشر میں کمی کی وجہ سے مہنگائی میں ہونے والے ممکنہ اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی ریٹ میں تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں سٹیٹ بینک نے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کو نوٹ کیا جس کے باعث بہتر زرعی پیداوار، مصنوعات کے شعبے کی پیداوار میں اضافے اور پرائیویٹ سیکٹر میں اچھے نتائج کے توقع ہے۔ سٹیٹ بینک نے اپنے بیان میں مالیاتی سال 2017ء میں جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کی توقع بھی ظاہر کی ہے۔ بیان کے مطابق مالیاتی سال 2017ء میں جولائی سے فروری کے دوران نجی شعبے کے کریڈٹ میں 349 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو گذشتہ سال صرف 267 ارب روپے تھا۔ علاوہ ازیں اپنے بیان میں سٹیٹ بینک نے معاشی سرگرمیوں میں ہونے والے اضافے کے سبب درآمدات میں اضافے کا بھی ذکر کیا جس کے نتیجے میں اکاؤنٹ کا خسارہ ساڑھے 5 ارب ڈالر ہوگیا۔سٹیٹ بینک کے اعلامیے کے مطابق مہنگائی میں مسلسل اضافے کا رحجان جاری ہے اور اکتوبر2016 ء میں مہنگائی کی شرح4.2 فیصد رہی ہے اس طرح سے مہنگائی کی شرح میں اکتوبر2015 ء کے بعد سے اضافے کا رحجان غالب ہے، مہنگائی کی شرح میں اکتوبر2015 ء کے مقابلے میں 1.6 فیصد اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق خام تیل کی عالمی قیمتیں مہنگائی پراثرانداز ہوسکتی ہیں، پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی بالحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) اکتوبر 2015 کے دوران پست ترین سطح تک پہنچنے کے بعد اضافے کا رجحان ہے۔قلیل مدت میں مہنگائی کا یہ قابل انتظام ماحول نمو کی موجودہ رفتار کیلئے اچھا شگون ہے۔تاہم تیل کی بین الاقوامی قیمت مہنگائی کو متاثر کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی ریاستی درجہ بندی میں حالیہ بہتری کے ساتھ سرکاری رقوم کی آمد سے زر ِمبادلہ کے ذخائر قائم رہنے کی توقع ہے۔ تاہم مالی سال 17کی باقی ماندہ مدت میں غیرتجارتی رقوم کا غیریقینی ہونا جاری کھاتے پر بالخصوص اور بیرونی شعبے پر بالعموم اثر انداز ہوگا۔