کیا سینیٹر سراج الحق واقعی سادہ لوح ہیں؟
ہماری موجودہ قومی تاریخ14 مئی 2006 سے شروع ہوتی ہے۔ اس دن لندن کے ایک فلیٹ میں پاکستان کی دونوں سیاسی قوتوں نے اعلان کیا کہ جمہوری کشمکش میں غیر جمہوری مداخلت کا خیرمقدم نہیں کریں گے۔ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اس معاہدے کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان دنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تھے اور اپنے اقتدار کے دوام کے لئے این آر او تک جانے والے پرویز مشرف صدر پاکستان، چودھری پرویزالٰہی کا میثاق جمہوریت پر تبصرہ یوں تھا:۔ ’’مسلم لیگ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی ہے‘‘۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ کوئی کسی دوسرے میں شامل نہیں ہوا تھا۔ دونوں جماعتوں کو اپنا اپنا مفاد عزیز تھا۔ میاں نواز شریف کو اپنا مفاد یاد رہا اور خوب یاد رہا۔ میثاق جمہوریت کی شق نمبر12 کے مطابق طے پایا کہ تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ختم کر دی جائے گی۔ اب میاں نواز شریف کے تیسری بار وزیراعظم بننے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہ رہی۔ بے نظیر بھٹو کو صرف اپنا اقتدار یاد رہا لیکن وہ بھٹو پارٹی کی اساس ’’جاگیرداری ٹھاہ‘‘ والا نعرہ بھول گئیں۔ پیچھے بہت پیچھے چلتے ہیں۔ مولوی عبدالرزاق کانپوری اپنی کتاب ’’یادایام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’مسلم ایجوکیشنل کانگرس (بعد میں کانفرنس) کا اجلاس منعقدہ،28 دسمبر1887ئ۔ شب کے کھانے کے بعد بارہ دری قیصر باغ میں سرسیداحمدخان نے اس موضوع پر تقریر کی کہ مسلمانوں کو من حیث القوم انڈین نیشنل کانگرس میں شریک ہونا چاہئے تھا یا نہیں۔ حاضرین میں سے متعدد نواب زادوں کے ہاتھوں میں تین خانوں والی کابک لٹکی ہوئی تھی جس پر سرخ ٹول منڈھی ہوئی تھی اور ہر خانے میں ایک بٹیر تھا اور ایک ایک بٹیر ہاتھ میں، جس کو وہ لڑانے کے لئے تیار کر رہے تھے اور اسی حالت میں جھوم جھوم کر وہ نعرہ تحسین بھی بلند کر رہے تھے‘‘۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کو تیس برس گزر چکے تھے۔ انگریز ہندوستان میں پوری طرح قابض ہو چکا تھا۔ یہ تھا ہماری اس وقت کی اشرافیہ کا مجموعی ناک نقشہ۔ انہی جیسے تیسے لوگوں سے سرسیداحمدخان نے ہماری آزادی کا قومی سفر شروع کیا۔ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے آغاز کیا۔ اس درس گاہ میں پوری ایک نسل تیار ہوئی۔ بقول مختار مسعود، پھر اسی نسل نے قائداعظم کی بگھی کھینچی اور ابوالکلام آزاد کی گاڑی روکی۔ بات آگے بڑھی۔ حضرت قائداعظم مسلمانوں کے لئے ایک الگ خطہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی کہ وہ ہمارا جاگیرداری سے پنڈ چھڑا جاتے۔ مہاتما بدھ اور چینی صدر مائو کی طرح بھٹو بھی ایک بہت بڑے خاندان سے تھے۔ ان کی اخلاقی برتری کا اندازہ لگائیں کہ 1957 کو کراچی میونسپل کارپوریشن توڑ دی گئی۔ صدر سکندر مرزا نے بھٹو کو پیشکش کی کہ وہ کراچی کے میئر کی حیثیت سے کارپوریشن کا بندوست اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ لیکن 29 سالہ نوجوان بھٹو نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ میں ایسے عہدے پر منتخب ہوئے بغیر کام نہیں کرنا چاہتا جس کا انتخاب کیا جاتا ہو۔ 10 جولائی 1962 کو بھٹو نے نیشنل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اپنا کرب بیان کیا۔ انہوں نے کہا… ’’میں اس سماج اور طبقے کا ایک فرد ہوں جسے مخصوص حقوق حاصل ہیں۔ آج ایک وزیر کی حیثیت سے مجھے یہاں جو تقریر کرنے کا موقعہ ملا ہے اس کی وجہ بھی یہی میرا اس مخصوص طبقے سے تعلق ہوتا ہے۔ اس جاگیردارانہ طبقے کے دو افراد جب آپس میں بھڑتے ہیں تو عوام کی غربت بدستور قائم رہتی ہے۔ وہ لوگوں کی غربت کی طرف سے آنکھ موند لیتے ہیں‘‘۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو نے اسی طبقے سے ہونے کے باوجود غریبوں کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیریں۔ وہ 44 سال کی عمر سے پہلے ہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے۔ اب کی بار پاکستان میں ایک جرنیل اقتدار ایک سویلین کو سونپنے پر مجبور ہوا تھا۔ سیاسی جماعتوں کا منشور ایک جال ہے جو الیکشن میں ووٹروں کو پھنسانے کے لئے ڈالا جاتا ہے لیکن ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھٹو اس سلسلہ میں ایک استثنا کا نام ہے۔ ’’جاگیرداری ٹھاہ، ان کے انتخابی جلسوں کا مرغوب نعرہ تھا۔ انہوں نے دسمبر 1971ء میں اقتدار سنبھالا اور یکم مارچ 1972ء کو زرعی اصلاحات کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ انہوں نے آب پاش علاقوں میں زمین کی حد ملکیت 500 ایکڑ سے گھٹا کر 150 ایکڑ اور غیرآب پاش علاقوں میں 1000 ایکڑ سے 300 ایکڑ کردی۔ اس اعلان کی زیادہ اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ اعلان ہزاروں ایکڑ کا مالک ایک پشتنی جاگیردار کر رہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اب کے پھر اقتدار ایک جرنیل نے ایک سویلین سے چھین لیا۔ واپسی کا قومی سفر شروع ہو گیا بھٹو کی اپنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری جاگیردار فاروق لغاری نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ زمین کی مقرر کی حد ملکیت ختم کر دی گئی کیا اس طرح اسلام کا بول بالا ہو گیا؟ ہم نہیں جانتے لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس سلسلہ میں نام اسلام کا ہی استعمال میں لایا گیا۔ میثاق جمہوریت میں زرعی اصلاحات کے بارے ایک لفظ بھی موجود نہیں تھا۔ اب بھی دونوں جماعتیں اس مسئلے پر خاموش ہیں۔ عمران خان صرف کرپشن روک کراور ٹیکس کلکشن سے تبدیلی لانے کے دعویدار ہیں۔ زمین کی حد ملکیت کو سردست وہ سرے سے ڈسکس ہی نہیں کرتے صرف سینیٹر سراج الحق جاگیرداری کے خلاف بات کرتے رہتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ وہ اپنی جماعت میں اکیلے یہ بات کرتے ہیں۔ ادھر اکیلے عابد حسن منٹو جاگیرداری کے خلاف سپریم کورٹ میں پہنچے ہوئے ہیں۔ ہمارے سادہ لوح درویش منش سینیٹر سراج الحق، عابد حسن منٹو کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے محض کبھی کبھار تقریر پر ہی اکتفاء کئے چلے جا رہے ہیں۔…؎
سر منبر خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
کیا سینیٹر سراج الحق واقعی سادہ لوح ہیں؟
پس تحریر: عبدالعلیم خان صدر تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کو اپنے قد کاٹھ کے باعث ایسی دقت پیش نہیں آئی ہو گی، ورنہ حافظ آباد کے ایک طاقتور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ان کے سیکرٹری جنرل چودھری شوکت مہدی بھٹی خوب جانتے ہیں کہ اسلام آباد دھرنے کے دنوں میں سٹیج پر چڑھنے کا نرخ کیا تھا؟ تصویر بنوانے کی قیمت کیا ادا کرنی پڑتی تھی؟ بہرحال یہ ناخوشگوار قصہ تمام تمام ہوا۔ اب پنجابی محاورے کے مطابق نئی کشتیاں ہیں اور نئے ملاح ہیں۔ ہمیں اللہ سے ان کی خیر مانگنی چاہئے۔ آخر میں میری طرف سے ضلع گوجرانوالہ میں پاکیزہ مالی شہرت رکھنے والے صدر اور سیکرٹری جنرل کی تقرری پر مبارکباد۔