نیب میں غیر قانونی تقرریوں کیخلاف ازخود نوٹس ....تقرری صدر کرے یا وزیراعظم قانون کے مطابق ہونی چاہیے : سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں نیب میں ہونے والی غیر قانونی تقرریوں کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے تعلیم و تجربہ کے مطلوبہ معےارکے برعکس بھرتی ہونے والے9 اعلیٰ افسران کو مراعات سمیت ریٹائرڈ ہونے کی تجویز دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر عدالت نے میرٹ پر اس کیس میں حکم جاری کیا تو وہ افسران ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مراعات سے بھی محروم بھی ہو سکتے ہیں جبکہ کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی ہے دوران سماعت ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ تعلیمی معیار پر پورا نہ اترنے والے افراد کو نیب کے اعلیٰ عہدوں پر مقرر کرکے ادارے کو تباہ کردیا گیا ہے ،نیب کی موجودہ حالت کا موجب یہ کم تعلیم یافتہ افسران ہیں،اگر تقرریو ں کے وقت اخبارات میں اشتہار دیا ہوتا تو آج قابل لوگ نیب میں نوکریاں کر رہے ہوتے، عدالت میرٹ اور پالیسیوں پر کوئی مصالحت نہیں کرے گی ا گر ان 9 افسران نے ریٹائرمنٹ نہ لی تو عدالت اپنا حکم جاری کرے گی،جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو عدالت نے چیرمین نیب چوہدری قمرالزمان کو روسٹرم پر بلا کر ان سے استفسارکیا کہ کیا تعلیمی قابلیت پر پورا نہ اترنے والے افراد کونیب میں اعلیٰ عہدوں پربھرتی کیا جاسکتا ہے؟ ایک امیدوار جس کی مطلوبہ ڈگری بی ایس سی کی بجائے بی اے ہو ،اسے کس طرح بھرتی کیا جا سکتا ہے ؟عدالت یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ آپ کے دور میں ہوا ہے لیکن اس وقت چیرمین نیب ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہ ذمہ داری بھی لینا پڑے گی ،کوئی ایسا قانون بتا دیں کہ جس میں تعلیمی معیار پر کسی قسم کی مصلحت کی اجازت ہو؟ جس پر وہ کوئی جواب نہ دے سکے تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ پھر آپ نے اب تک ایسے افسران کی تقرریوں کو ڈی نوٹیفائی کیوں نہیں کیا ہے؟ کیا آج آپ انہیں ڈی نوٹیفائی کردیں گے؟ کیا نیب میں اہلیت اور معیار جانچنے کا کوئی نظام بھی موجود ہے ؟نیب کے وکیل نے بتایا کہ کل 629کیسز کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں سے 101میں تقرریوںمیں تضاد پایا جاتا ہے ، جس پر جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ ان میں سے 48کی تقرریوں کو تو آج ہی ڈی نوٹیفائی کردیں، البتہ آپ انہیں پنشنری مراعات کا آپشن دے سکتے ہیں ،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ آپ اس حوالہ سے حکم جاری کریں، کیونکہ چیئرمین نیب کے پاس اس نوعیت کا کوئی اختیار نہیں ہے یا تو عدالت تقرریوں کو خود کالعدم قرار دے یا پھر اس کی تشریح کرے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم اس کیس کی سماعت آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت کررہے ہیں، ہم اس حوالہ سے حکم جاری کریں گے جس میںچیئرمین نیب کی مرضی کے شامل ہونے کا ذکر بھی ہوگا ،فاضل عدالت نے اس کیس کے ایک فریق اور نیب کے افسرخالد محمود کی درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ انہیں کسی قانون کے تحت بھی انٹی ڈیٹ ترقی نہیں مل سکتی تھی ،آپ کو ترقی ریگولزائیزشن کے بعد سے ہی مل سکتی ہے ،اگر ہم آﺅٹ آف ٹرن پروموشن کا اصول لاگو کریں تو ہم آج ہی چیئرمین نیب کو ان سب کو فارغ کرنے کا حکم جاری کر سکتے ہیں، فاضل عدالت نے نیب کی ''کرپشن سے آگاہی مہم کی ڈائریکٹر'' عالیہ رشید کی درخواست کی سماعت کی تو ان کی جانب سے حافظ ایس اے رحمان ایڈوکیٹ پیش ہوئے ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ کھیل کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کو نیب میں ڈائریکٹر کیوں لگایا گیا ہے؟کیا اب نیب میں ٹینس کھیلی جائے گی ، تو انہوں نے بتایا کہ انہیں 2003 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر مقرر کیا گیا تھا کیا گیا، جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ اس وقت وزیر اعظم کون تھا؟تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت ظفراللہ جمالی وزیراعظم تھے،جسٹس قاضیٰ فائز نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت جمہوری دور تھا یا مارشل لا تھا ؟جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا وزیراعظم قانون سے بالاترہوتا ہے، تقرریاں وزیراعظم کرے یا صدر قانون کے مطابق ہونی چاہییں، پولیس میںآﺅٹ آف ٹرن پروموشن کے مقدمہ میں سامنے آیا ہے کہ بھارت سے کبڈی میچ جیتنے والے ایک ہیڈ کانسٹیبل کو ترقی دے کر اے ایس آئی اور کچھ عرصہ بعد پھر اسی بنائ پر ترقی دیکر سب انسپکٹر بنا دیا گیاتھا ،شکر ہے کبڈی کے مزید میچ نہیں ہوئے ورنہ اس اہلکار نے آ ئی جی پنجاب لگ جانا تھا ،ہم نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کی گئی غیر قانونی بھرتیوں کو فارغ کردیا تھا، وزیراعظم پبلک سرونٹ ہوتا ہے، سپورٹس وومین کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن اسے نیب میں بھرتی کرنا غلط ہے، وزیر اعظم اور صدر کو قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے ، ہم عدالت ہیں کوئی کوئی حکومت نہیں ہیں اورنیب کو خو د نہیں چلانا چاہتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیر اعظم نے قانون کی کس شق کے تحت یہ احکامات جاری کئے تھے؟ جسٹس امیر ہانی نے کہاکہ کیا وزیر اعظم کا حکم قانون سے بڑھ کر ہے؟ وزیر اعظم بھی ایک پبلک سرونٹ ہوتا ہے ،اسے بھی خلاف قانون تقرریاں کرنے کا اختیار نہیں ہے ،پاکستان کے آئین کے مطابق وزیر اعظم کو حاصل اختیارات ان پر قوم کا اعتماد ہے جبکہ برٹش قانون کے مطابق ایسا کوئی بھی حکم وزیر اعظم کا استحقاق ہوتا ہے ، وزیر اعظم قوم کا ٹرسٹی ہوتا ہے ،اگر کسی کی مہارت کھیل کے شعبہ میں ہے تو کیا اسے اٹھا کہ ڈی نیب یا چیئرمین نیب لگا دیا جائے گا ؟ انہوں نے کہا کہ عالیہ رشید کے لئے نیب میں ایک سپورٹس سیل بنا کر انہیں وہاں پر تعینات کر نے کا آپشن بھی وجود ہے ،لیکن وہ کسی صورت بھی بطور فیلڈ سٹاف کام نہیں کرسکتیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا اختیارات کے ناجائز استعمال پر سابق وزیر اعظم کے خلاف نیب آردیننس کی دفعہ 9کے تحت مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے ، جس پرجسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اس دفعہ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے ،فاضل عدالت نے ایک اور متاثرہ افسر میجر ریٹائرڈ شبیر کی درخواست کی سماعت کی تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ آرمی سے کوئی افسر نیب میں ڈیپوٹیشن پر تو آسکتا ہے لیکن اس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکتا ہے ،اگر آپ کیرئیر افسر ہوتے تو کیا پاک فوج آپ کو نیب میں آنے دیتی ؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا پاکستان با کونسل اس بات کومانے گی کہ بندے کو پہلے جج لگا دیا جائے اور بعد میں میں وہ ایل ایل بی کرتا رہے ؟جس پر درخواست گزار نے عدالتی کارروائی میں مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے انہیں جھاڑ دیا اور سیٹ پر بیٹھنے کو کہا ، انکے وکیل نے کہاکہ ا ن کے موکل نے سروس کے دوران ڈبل ایم اے کیا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکے پاس اس کے لئے وقت کیسے نکلا ہے ؟جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب کے پاس اپنے کام کرنے کے علاوہ وقت ہی وقت ہے ! بعد ازاں فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی ۔