نواز شریف:بنیاد پرستی اور روشن خیالی کے مباحث
زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے اور ہم لایعنی مباحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ روشن خیالی اور بنیاد پرستی کا مکالمہ ایک بار پھر زور شور سے شروع ہے۔ اس باسی کڑھی میں ابال جناب نواز شریف کے ہولی کی تقریب سے خطاب کے بعد آیا ہے جہاں انہوں نے رنگوں کے کھیل میں شامل ہونے کی معصومانہ خواہش ظاہر کی اور اختلافی معاملات سے دور رہنے کا عندیہ دیا۔
"وزیراعظم نواز شریف کو عقائد اور دینی مسائل سے وابستہ معاملات پر راہ چلتے تبصرے نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ بڑے نازک معاملات ہیں جن پر ہمارے لوگ بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ لمحوں میں مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں بزرگ مسلم لیگی راہنما راجہ ظفرالحق اپنے نورتنوں کی مجلس میں وزیراعظم نواز شریف کے کراچی میں ہولی یا دیوالی کی تقریب میں فی البدیہہ خطاب پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب نواز شریف کو دینی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ازحد محتاط رہنا چاہیے جس پر سرکار دربار کے ایک مشہور و معروف نورتن نے جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ چند دن بعد ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اہم اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کی توجہ اس اہم معاملے کی جانب دلوائی جانی چاہیے۔
احباب کے بار بار اصرار اور توجہ دلانے پر اس کالم نگار کو وزیراعظم کی تقریر کا 32 منٹ طویل کلپ توجہ سے سننا پڑا۔ جس میں جناب نواز شریف بڑی سادگی اور معصومیت سے کہتے ہیں کہ جنت دوزخ کے فیصلے کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور پھر پلٹ کر حاضرین سے جنت اور دوزخ کے ہندی یا سنسکرت معنی پوچھ کر نرگ اور سورگ میں ترجمہ کرتے ہیں۔ بظاہر اس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں۔جناب نواز شریف اقلیتی ہندو برادری کی دل جوئی اور تالیفِ قلب کے لئے ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپ خوشی کے اس موقع پر مجھے بھی رنگوں میں نہلا دیں۔ میرے ساتھ بھی ہولی کھیلیں۔ یہ کلپ دیکھنے کے بعد یہ کالم نگار مطمئن ہو گیا کہ خوامخواہ نیک دل وزیراعظم کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو اقلیتی ہندو برادری کی دل جوئی کےلئے عمومی گفتگو کر رہے تھے۔ وزیراعظم کا تعاقب کرنے والوں میں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی میں ناکامی پر خفاہو جانے والے بعض صالح عناصر پیش پیش ہیں جو زبان کے زور پر اقتدار کے ایوانوں میں سرنگیں لگانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور اب آنے بہانے وزیراعظم پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ معاملہ رفت گذشت ہو چکا تھا کہ نجی خبررساں اداروں کے قیام اور انہیں چلانے میں کی شہرت رکھنے والے جاوید قریشی نے اسی حوالے سے دو کلپ بھجوائے۔
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی سے نسبت رکھنے والے دو معروف بریلوی علماءڈاکٹر آصف اشرف جلالی اور مرشدم مولانا خادم حسین رضوی نے وزیراعظم نواز شریف کی تقریر پر خالصتاً دینی نقطہ نظر سے اظہار خیال کیا تھا کہ جنت اور دوزخ کے فیصلے تو رب کعبہ نے واضح طور پر کر دیئے ہیں کہ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے توحید پرست جنت میں جائیں گے اور بت پرست مشرکوں کا ٹھکانہ جہنم ہو گا باقی رنگین بیانی ہے۔ خوش کلامی ہے اور علم الکلام کے دلکش اور دلربا مظاہرے ہیں لیکن ان سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ وزیراعظم کو دینی معاملات کی حدود میں آنے والے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے ازحد محتاط رہنا چاہیے۔
اسی حوالے سے گذشتہ ہفتے لاہور مال روڈ پر جماعة الدعوة کے رہنماﺅں نے بھی جناب وزیراعظم نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ فرزند پاکستان حافظ سعید کی بلاجواز نظربندی پر خاصے آزردہ تھے۔ اس سارے معاملے سے قطع نظر پاکستان میں منصوبہ بندی کے تحت ہماری صاف ستھری اور نتھری اردو میں فارسی اور عربی کی جگہ سنسکرت کے غیرمانوس الفاظ کو غیر محسوس طریقے سے ”مانوس“ بنایا جارہا ہے۔ خاص طور پر محبت کی آشاﺅں والے میڈیا گروپ کے بعض نمایاں کالم نگاروں کی تحریروں میں ہندی الفاظ ضرورت سے زیادہ استعمال کئے جا رہے ہیں جو سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا اب ہفتہ وار تجزیہ کیا جارہا ہے۔ راجہ ظفرالحق نے اپنے نورتنوں کی محفل میں بتایا کہ امریکی ہمارے سیاسی، سماجی اور دینی رویوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں میں ذاتی حوالوں سے نمایاں رہنماﺅں کے رجحانات کیا ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف کے مارشل لا 1999ءکے بعد امریکی ارکان کانگرس کا وفد حالات کا جائزہ لینے اسلام آباد آیا تو اس وقت کے سفیر کا دعوت نامہ آیا کہ امریکی سفارتخانہ میں امریکی ارکان کانگرس و سینٹ سے ملاقات کا اہتمام ہے جس پر میں نے صرف اس لئے معذرت کر لی کہ جائزہ وفد ہزاروں کلومیٹر سے اسلام آباد آسکتا ہے تو چند کلومیٹر پر میرے گھر کیوں نہیں آسکتا جس پر یہ وفد امریکی سفیر کے ساتھ یہاں آیا اور میں نے وسیم سجاد، الٰہی بخش سومرو سمیت دیگر احباب کوبلالیا۔ رسمی گفتگو کے دوران امریکی سفیر نے چٹ پر کچھ لکھ کر وفد کے سربراہ کے آگے رکھ دی۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں کو رخصت کرتے ہی میں نے چکور چٹوں والے پیڈ کا جائزہ لیا جس پر بڑے مدھم نقش پڑھے جا سکتے تھے۔ لکھا تھا:”ہمارا میزبان بنیاد پرست ہے“۔
امریکی سفیر نے فوری طور پرراجہ ظفرالحق کے سیاسی اور مذہبی رحجانات کے بارے میں امریکی سیاستدانوں کے وفد کے سربراہ کو آگاہ کر دیا تھا کہ دوران گفتگو اس حوالے سے محتاط ہو جائے۔ نام نہاد نظریاتی تفریق کی سرحدیں کب کی پامال ہوچکی ہیں اب اس کی جگہ نام نہاد ترقی پسندی اور روشن خیالی نے لے لی ہے۔ یہ نادیدہ اور غیرمرئی تفریق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جارہی ہے۔ خود یہ کالم نگار اپنی افتادطبع اور آزاد روی کی وجہ سے بار بار ایسے خوشگوار حادثات کا شکار ہوتا رہا ہے۔
یہ اوائل 1999ءکا واقعہ ہے جب اربوں روپے کی ٹیکس چوری کو آزادی¿ صحافت کی آڑ میں چھپانے کا کھیل عروج پر تھا۔ سینٹرسیف الرحمن' نہیں جناب احتساب الرحمن ایک بڑے میڈیا گروپ کے تعاقب میں تھے۔ سرشام سرمئی جادوئی سکرینوں پر آزادی اظہار اور آئین کی بالادستی کے بھاشن دینے والے بیشتر بزرگ اداکار میری توفیقہ آپا کے صاحبزادے سیف الرحمن کے چرنوں میں بیٹھے ہوتے تھے۔ ہم آزادی اظہار کے متوالے سعودی پاک ٹاور کے سامنے حکومتی مظالم پر احتجاج ریکارڈ کرانے اور اقوام متحدہ کے حکام کو یادداشت جمع کرانے کے لئے اکٹھے تھے کہ اچانک برادرم نصرت جاوید نے مجھے آواز دی۔جناب نصرت اس وقت ڈاکٹر ملیحہ لودھی سے متعارف کرا رہے تھے۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ اسے جانتی ہیں میری ملیحہ لودھی سے ملاقات نہیں تھی وہ کیا بتاتیں۔نصرت جاوید نے انہیں بتایا کہ یہ آپ کا مایہ ناز رپورٹر اسلم خان ہے۔ یہ گفتگو انگریزی میں ہورہی تھی کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بے اختیار کہا۔” میں اسے جانتی ہوں یہ ایک بنیاد پرست ہے لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوتی تھی۔اس پر جناب نصرت جاوید نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔
You are true madam, But he is Vodka, Fundo. جس پر ڈاکٹر ملیحہ لودھی حیران و پریشان دائیں بائیں دیکھنے لگیں۔ برادرم نصرت جاوید نے مجھ سے پوچھا آپ تو اپنی ایڈیٹر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو جانتے ہوں گے جس پر اور کیا کہتا ، عرض کی انہیں کون نہیں جانتا۔ قبلہ شاہ جی، مجھے ایک طرف لے گئے اور فرمایا کہ مجھے خدشہ تھا کہ تم جواباً بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں ڈاکٹر صاحبہ کو پہچاننے سے ہی انکار نہ کر دو لیکن وقت تمہیں آہستہ آہستہ ادب آداب سکھا رہا ہے۔
امریکہ'بنیاد پرستی اور نواز شریف۔۔۔۔ گذشتہ تین دہائیوں سے جاری ارتقائی عمل میں زیب داستان کے لئے اپنے حصے کی یادوں کے توشہ خانے سے ایک واقعہ قارئین کی نذر ہے کہ بہت سے قارئین پوچھتے ہیں کہ آپ اچانک کہاں سے نمودار ہو گئے۔ آخر انہیں کیا بتاﺅں کہ یہیں کہیں پس پردہ موجود تھا جب وقت آگیا تو حاضر خدمت ہوں۔آئندہ چند دنوں میں سرگودھا یونیورسٹی اور بعد ازاں سیالکوٹ جاو¿ں گا۔