رضا ربانی کا فوجی عدالتوں کی مخالفت کا فیصلہ
چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں پارٹی سربراہان کو زیادہ اختیارات دے دیئے گئے مگر جب یہ ترامیم ہو رہی تھیں اس وقت ہارس ٹریڈنگ کا ماحول تھا۔ پارلیمنٹ اس میں تبدیلی کر سکے گی۔ میری بزدلی یا لالچ تھا کہ میں نے سینٹ سے استعفیٰ نہیں دیا۔ اب چونکہ بل میرے دستخط سے ہی صدر مملکت کے پاس جائیگا اسلئے فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ میں موجود رہوں اور فوجی عدالتوں کے بل کی مخالفت کروں۔
میاں رضا ربانی ایک اصول پرست سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے دو سال قبل فوجی عدالتوں کے قیام کی ذاتی طور پر مخالفت کی تاہم پارٹی م¶قف کی تائید کرتے ہوئے حمایت کی۔ اس موقع پر انکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ وہ دل سے جو چاہتے تھے اس کےخلاف ووٹ دے رہے تھے۔ پارٹی ڈسپلن کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑا اور جب تک آئین میں پارٹی فیصلوں کی پابندی کی شق موجود ہے انہیں ایسا کرنا پڑےگا ورنہ پھر پارٹی لیڈر ان کو ڈی سیٹ کرا سکتا ہے۔ بڑے فیصلے آنسو¶ں سے نہیں مضبوط ارادوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ رضا ربانی نے بل کی مخالفت کا فیصلہ اصول اور ضمیر کے مطابق کیا ہے جسے عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔ وہ کھل کر فوجی عدالتوں کی مخالفت کریں جن کا جمہوریت میں کوئی کردار اور جواز نہیں ہو سکتا۔ چیئرمین سینٹ کو اگر اس کاز کےلئے استعفیٰ بھی دینا پڑے تو گریز نہ کریں۔