پنجاب پولیس کے 121 افسروں کی تنزلی برقرار‘ سپریم کورٹ کے حکم پر ڈائریکٹر نیب لاہور ڈی جی کراچی ریٹائر
اسلام آباد+ لاہور (نمائندہ نوائے وقت+ وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے آئوٹ آف ٹرن پولیس پرموشنز کیس میں پنجاب پولیس کے121 افسروں کی تنزلی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے متاثرہ افسروں کی جانب سے دائرتمام درخواستیں خارج کردی ہیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ افسروں نے ساری زندگی پولیس میں گزاری ہے ، اب ریٹائرمنٹ ہی لے لیں تو بہتر ہے متاثرہ پولیس افسر خود فیصلہ کرلیں اگر سپریم کورٹ نے آئین و قانون اور قوائد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا تو وہ مشکل میں پڑ جائیں گے‘ حق داروں کو میرٹ پر آگے آنا ہوگا‘ عدالت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتی، عدالت نے وکلا سے کہاکہ بتایا جائے کہ متعلقہ افسر ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں یا عدالتی فیصلے کا انتظارکریں گے۔ عدالت نے قرار دیاکہ پنجاب پولیس کے افسروں کی تنزلی سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ اورآ ئی جی کانوٹیفیکیشن درست ہے ، ہم نے سندھ میں تمام آئوٹ آف ٹرن پروموشن واپس کی ہیں جو لوگ چھلانگ لگاکر آگے آئے ہیں انھیں واپس جانا ہوگا اب جس کی باری ہوگی اس کوہی آگے آنا چاہئے، ہم ناانصافی نہیں کرسکتے اگر محکمے صحیح کام کریں تو لوگ عدالت تک نہ آئیں ، ہم نے اپنے فیصلوں کے بارے میں اللہ کو جواب دینا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پروموشن کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے ، جو متاثرہ افسروں کے حوالے سے فیصلہ کرے گی جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ چیف سیکرٹری نے ا پنی رپورٹ میں کمیٹی کا ذکر ہی نہیں کیا توآپ کس کمیٹی کا ذکر کررہے ہیں ۔ جسٹس فائز عیسٰی نے ان سے کہاکہ کیوں نہ آپ کواور آپکے وزیرقانون کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے نیب میں غیرقانونی بھرتیوںکے حوالے ازخود نوٹس کیس میں عدالتی تجویزکی روشنی میں ریٹائرمنٹ لینے والے افسروں کو فوری ریٹائرکرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو ہدایت کی ہے کہ ریٹائرمنٹ پر رضامندی ظاہرکرنے والے افسروں کو پنشن سمیت تمام مراعات دی جائیں، جو افسر سابقہ اداروں میں جانا چاہتے ہیں ان کو واپس بھیج کر ساتھی افسر کے مساوی ترقی دے کر ایڈجسٹ کیا جائے جبکہ نیب کے دیگر 48 افسروں کے بارے میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور چیئرمین نیب مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ عدالت غیرقانونی بھرتیوں کوبرداشت نہیں کرے گی ،کیا سپریم کورٹ کو بادشاہوں والے اختیارات حاصل ہیں ہمیشہ عدلیہ کا احتساب کبھی نہ ہونے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا فیصلہ دیا تو سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو مستعفی ہونا پڑا ،کیا ہم بھی غیر قانونی بھرتیوں کو جائز قرار دیکر مستعفی ہوں ؟ نیب کے جن دو افسروں نے ریٹائرمنٹ لینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے انہیں پنشن سمیت تمام مراعات دی جائیں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کوئٹہ محمد عامر اور ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور عنصر یعقوب نے اصل محکموں میں جانے کے رضا مندی ظاہر کی ہے ، دونوں افسران چیئرمین کو درخواست دیں اور چیئرمین نیب انہیں جانے کی اجازت دیں۔ جسٹس امیر حانی مسلم نے کہاکہ وزیر اعظم قانون کے ماتحت ہیں،کیا وزیر اعظم میٹرک پاس کو پالیسی کے تحت پی ایچ ڈی کی ڈگری دے سکتے ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا فوج میں قوانین نرم کرکے بھرتی ہو سکتی ہے، چیئرمین نیب عدالت کو بتایا کہ نیب میںاعلیٰ عہدوں پر بھرتی ہونے والے کم تعلیم یافتہ9 افسروں میں سے ڈی جی نیب کراچی کرنل ریٹائر حئی اور ڈائریکٹر نیب لاہور طارق نعیم عدالتی تجویز کی روشنی میں ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ ہیڈآفس میں ذمہ داری اداکرنے والے ڈائریکٹرمحمد یونس اورکرنل ریٹائر فرح نسیم نے ریٹائرمنٹ لینے کاآپشن قبول کرلیا ہے۔ عدالت نے قرار دیاکہ ڈی جی نیب لاہور میجر ریٹائر برہان علی ، ڈی جی بلوچستان میجر ریٹائر طارق محمود ، قائم مقام ڈی جی کراچی میجر شہزاد اور ڈائریکٹر عالیہ رشید کے بارے میں اگلے روز فیصلہ کیا جائے گا، عدالت نے آج سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو طلب کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے کہاکہ نیب کی آگہی مہم کی ڈائریکٹر عالیہ رشید کوبھی کہا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ لے لیں، اس سلسلے میںان کی مرضی پوچھی جائے اورعدالت کوہاں یا ناں میں جواب دیاجائے ورنہ عدالت اپنا حکم جاری کرے گی، عالیہ رشید کے وکیل نے عدالت کوبتایاکہ عالیہ رشید کی نیب میں بھرتی وزیر اعظم نے پالیسی میٹر کے تحت کی تھی جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے فاضل وکیل کو کہا کہ صرف وسیع تر قومی مفاد کے تحت ہی پالیسی میٹر پر احکامات جاری کئے جاسکتے ہیں، عد الت نے عالیہ رشید کے پیش نہ ہونے پر ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے استفسارکیاکہ عالیہ رشید کیوں پیش نہیں ہوئیں، ان کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے اور وہ لیکچر دے رہی ہیں لگتا ہے وہ سپریم کورٹ کے احکامات کو ہلکا لے رہی ہیں۔ سماعت کے دوران نیب کی ایک سابق ریجنل ڈائریکٹر شائستہ نزہت نے پیش ہوکرعدالت کوعالیہ رشید کے حوالے سے بتایاکہ عالیہ رشید 1995ء میں محکمہ تعلیم کے ایک پراجیکٹ پوسٹ پر بھرتی ہوئی تھی۔ انہوں نے کنٹریکٹ میں دو مرتبہ توسیع لی پہلے ایک سال اور پھر اڑھائی سال، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان کو ریگولر نہیں کیا، لیکن مشرف دور میں پتہ چلا کہ وہ نیب میںگریڈ 18 کی پوسٹ پر تعینات ہوئی ہیں دو ماہ بعد ان کوگریڈ 19میں ترقی دی گئی تاہم محکمہ تعلیم میں کنٹریکٹ پرکام کرنے کے بعد سے لے کرنیب میں جوائننگ دینے کے درمیانی مدت کے بارے میں کسی کوعلم نہیں کہ وہ کہاں تھیں ا نہوں نے اس حوالے سے عدالت کو ریکارڈ بھی پیش کیا جس پر عدالت نے ان کو عالیہ رشید کے وکیل کو بھی ریکارڈ کی نقل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی آج بدھ تک ملتوی کردی۔ ادھر لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہائیکورٹ میں آؤٹ آف ٹرن بھرتیوں اور ترقیاں لینے والے افسروں اور ملازمین کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیا جائیگا۔ سپریم کورٹ اعلیٰ عدلیہ میں آؤٹ آف ٹرن ترقیوں اور بھرتیوں کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے۔ اب صرف فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہے۔