• news
  • image

با اثر بیٹی اور چند کتابیں

برطانوی نشریاتی ادارے نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو اہم ترین دختران اول (فرسٹ ڈاٹرز) یعنی سربراہان مملکت کی بااثر ترین بیٹیوں میںشامل کر لیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق 2013ء کے عام انتخابات میں مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کو فتح دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب پہلی بار نواز شریف، وزیراعظم منتخب ہوئے تو بیگم کلثوم نواز شریف کا انٹرویو شائع ہوا جس میں ان سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے اصولوں کے مطابق کریں گے تو سب سے زیادہ اچھی ہو گی۔ ہمارے گھر میں بچے سکول، کالج سے سیدھے گھر آتے ہیں۔ میری بیٹی مریم اپنی کزنز کے ساتھ مل کر بیٹھتی ہے۔ اس کی اپنی ایکٹی ویٹیز ہوتی ہیں، گھر کے اندر ہی۔ اگر اس کو کوئی چیز خریدنی ہوتی ہے، میں خود ساتھ بازار جاتی ہوں۔ بچوں کو میں خود پڑھاتی ہوں۔ نواز کے پاس تو اتنا ٹائم نہیں ہوتا۔ انٹرویو کے دوران میں مریم کمرے میں آئیں اور کہنے لگیں۔ میرے ابو نے آج تک مجھے نہیں ڈانٹا۔ دنیا میں کسی کے ابو ایسے نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر کلثوم نواز نے کہا کہ میں ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ مریم ایسا مت کہا کرو کیونکہ ہر ایک کے لیے اسکے ابو بیسٹ ہوتے ہیں۔ بہرکیف یہ پُرانی باتیں ہیں جب مریم زیرتعلیم تھیں۔ اب اس کا سیاست میں نام اور مقام ہے۔ اب کچھ ذکر کتابوں کا۔افتخار شوکت سے میرے مراسم دیرینہ ہیں بلکہ انکے والد شوکت علی چودھری صاحب سے بھی نیازمندانہ تعلق رہا۔ جو سول سروس میں تھے۔ افتخار شوکت ایک سکول کا مالک، سربراہ کے علاوہ ایڈووکیٹ ہے۔ حال ہی میں ان کی غزلیات کا مجموعہ ’’پیار کی پہلی بارش‘‘ شائع ہوا ہے۔ انکی ایک بیٹی ہے۔ اپنا شعری مجموعہ دختر عزیز از جان مہرین افتخار کے نام کیا ہے۔ کتاب کے شروع میں افتخار شوکت نے اپنی چند یادوں کو بھی تازہ کیا ہے۔ ساہیوال قیام کے دوران میرا ان سے بذریعہ خط کتابت رابطہ رہا۔ ان کا کلام اور تحریریں اپنے جریدہ ’’سانجھاں‘‘ میں شائع کرتا رہا۔ عطاء الحق قاسمی، خالد شریف، محمد افتخار شفیع اور ندیم بھابھہ نے افتخار شوکت کی شاعری کو سراہا اور اپنی آرا لکھیں جو کتاب میں شامل ہیں۔مئی 2000ء میں پہلی بار برطانیہ گیا۔ وہاں اولڈہم (مانچسٹر) میں اردو اور پنجابی کے معروف شاعر، ادیب صابر رضا نے ’’کاروان ادب‘‘ کے تحت میرے اعزاز میں تقریب کا اہتام کیا۔ صابر رضا کاروان ادب (برطانیہ) کے صدر ہیں۔ تقریب میں معروف شاعرہ نغمانہ کنول شیخ بھی موجود تھیں۔ انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ’’اداسیاں بے ثمر ہیں‘‘ عنایت کیا۔ نغمانہ کنول شیخ پاکستان کے شہر گجرات میں پیدا ہوئیں۔ شہر اقبال سیالکوٹ اور لاہور میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور پھر تقدیر کی ہوائیں انہیں سات سمندر پار لے گئیں۔ مڈل ایسٹ، فارایسٹ، یورپ سے ہوتے ہوئے انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں قیام کیا۔ مانچسٹر میں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ حال ہی میں آغا نثار نے ان کا نیا شعری مجموعہ ’’کچھ ادھورا ہے ابھی‘‘ شائع کیا ہے۔ قبل ازیں ان کے دس شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے لکھا ہے۔ ’’نغمانہ کنول دیارغیر میں منفرد شعری اوصاف کی حامل ایک اہم شاعرہ ہیں جن کا تازہ شعری مجموعہ کلام انکی فنی ارتقا کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نغمانہ کنول شیخ سچے جذبوں کی شاعرہ ہیں، جو برطانیہ میں ریڈیو اور ٹیلی وژن پر بارہا اپنا کلام سنا چکی ہیں‘‘۔
محمد نعیم یاد کا تعلق جوہر آباد (ضلع خوشاب) سے ہے۔ ان کا غائبانہ تعارف میرے عزیز دوست ہڈالی میں مقیم محمد علی اسد بھٹی نے کرایا۔ ’’بے نام مسافتیں‘‘ محمد نعیم یاد کا افسانوی مجموعہ ہے۔ قبل ازیں ان کے افسانوں اور افسانچوں پر مبنی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ محمد نعیم یاد نے لکھا ’’وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی تجربے اور فکر میں اٹھان سے کئی دوسری حسیات بھی ابھرنے لگتی ہیں، جیسے احساسِ محبت، ہمدردی، احساس جمال و انبساط، معاشرتی ناہمواریاں اور ناانصافی کا احساس، اپنے اردگرد کی زندگی میں طرح طرح کے تضادات، مظالم اور مصائب میں نے زندگی کو کبھی سراب یا روحانی طلسم کدہ میں رکھ کر نہیں دیکھا بلکہ حقائق کا وجدان اور مشاہدات کی یکجائی پر میری جستجو کا سفر جاری ہے‘‘۔’’تاریخ خالصہ‘‘ دین چوہدری سیال کی تصنیف ہے جو سویڈن میں مقیم ہیں۔ کتاب میں بابا گرونانک سے لے کر کشمیر کی فروخت، مہاراجہ دلیپ سنگھ اور دوسرے سکھ امرا کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ دین چوہدری سیال نے لکھا کہ ’’تاریخ خالصہ کے موضوع پر کتاب لکھنے کا خیال مجھے اس وجہ سے آیا کہ متعدد خداؤں کے بجائے خدائے واحد پر یقین کرتے ہوئے سکھ کسی حد تک مسلمانوں کے بہت قریب ہیں مگر عمر بھر یہی سنتے آئے ہیں کہ جب بھی فساد یا جھگڑا ہوا تو سکھوں ہی نے مسلمانوں کے خلاف اہم رول ادا کیا۔ اگرچہ ہندوؤں کے ساتھ بھی مسلمانوں کے تنازعات رہے ہیں۔ میں یہ معما حل کرنا چاہتا تھا‘‘ وہ معما حل کر پائے یا نہیں۔ سویڈن ہی کے ایاز حمزہ نے لکھا ہے کہ دین چوہدری سیال نے سکھوں کی وسیع النظری کو امتحان میں ڈال دیا ہے‘‘ اور پھر The Sikhs in History کے مصنف سنگت سنگھ نے بعض نکات کی وضاحت کی ہے۔ مثلاََ بھائی لہنا میراثی نہیں، کھتری تھا اور کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ گورنانک، بابر کی جیل میں سات ماہ نہیں رہے۔ انہوں نے دوبار حج نہیں کیا۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ چوتھے گورو نہیں، پانچویں گورو نے حضرت میاں میر کو بلایا تھا۔ اکبر کی پیشکش اس سے قبل قبول نہیں کی گئی تھی۔ گرنتھ مذہبی کتابوں میں واحد کتاب ہے جسے گوروؤں کے جیتے جی تالیف کیا گیا۔ گورونانک صرف ویجیٹرین نہیں تھے۔گوروگوبند سنگھ کی پہلی ایک درجن جنگیں، ہندو راجاؤں کے خلاف تھیں۔ مسلمانوں کے خلاف نہیں تھیں۔ سکھوں نے مساجد مسمار نہیں کیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن