میانوالی میں علاج معالجہ کی مناسب سہولیات کی ضرورت
مکرمی! میری 5 سالہ پوتی نمرہ ضیاء کو ایک حادثہ میں ہڈی کا فریکچر ہو گیا۔ اس کو فوراً ڈی ایچ کیو ہسپتال میانوالی کی ایمرجنسی میں لے گیا۔ موقع پر موجود رنگروٹ قسم کے ڈاکٹر نے ایکسرے کرانے اور ہسپتال کے کسی سرجن کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ ایکسرے روم میں ایکسرے فلم ختم ہے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ پرائیویٹ طورپر ایکسرے کرایا۔ ہسپتال میں 10 بجے تک کوئی سرجن نہیں آیا تھا اور ہڈی جوڑ کا سرجن چھٹی پر تھا۔ مجبوراً مریضہ کا باہر سے علاج کرانا پڑا جو خاصا مہنگا تھا‘ لیکن بچی کی ٹانگ پھر بھی ٹھیک نہ ہوئی۔ لڑکی کا والد ضیاء اللہ فوج میں سپاہی ہے۔ بچی کو PAC ہسپتال لے گئے۔ انتظامیہ نے بچی کے کاغذات باپ کی موجودہ یونٹ سے تصدیق کرانے کی شرط لگا دی جو اس کے صوبہ بلوچستان میں ضلع سوئی میں تعیناتی ہونے کے باعث فوری طورپر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ بچی کو علاج کیلئے چلڈرن ہسپتال اسلام آباد لے جانا پڑا۔ واضح ہو کہ اس فوجی ہسپتال میں تلہ گنگ‘پپلاں اور عیسیٰ خیل جیسے دور دراز علاقوں سے ہی اکثر مریض آتے ہیں‘ لیکن اس دن تمام فوجی مریض ہسپتال انتظامیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے واپس لوٹ رہے تھے۔ حکومت پنجاب کا سارا زور صرف لاہور کو سنوارنے پر لگا ہوا ہے۔ میانوالی جیسے دور افتادہ ضلع میں بھی اگر علاج معالجہ کی مناسب سہولیات فراہم کر دی جائیں تو کیا برا ہے۔ ایمرجنسی میں مریض یوں ذلیل و خوار نہ ہوں۔(فتح محمد محلہ ہاروانڈی غربی موسیٰ خیل)